دوسرے ممالک کا خطرناک کچرا پاکستان بھیجا جانے لگا

دوسرے ممالک کا خطرناک کچرا پاکستان بھیجا جانے لگا
بہت سے ترقی یافتہ ممالک اپنے خطرناک کچرے پاکستان بھیج رہے ہیں۔ ماہرین ماحولیات اور سیاست دانوں نے ان رپورٹس پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے میں شائع انتہائی خوفناک سٹوری میں بتایا گیا ہے کہ سعودی عرب، ایران، عرب امارات اور برطانیہ سمیت دیگر ترقی یافتہ ممالک اپنا خطرناک فضلہ یا کچرا پاکستان میں بھیج رہے ہیں۔ سینیٹر محمد ہمایوں مہمند نے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے علم میں یہ بات آئی ہے کہ پاکستان ترقی یافتہ ممالک سے کچرا برآمد کر رہا ہے، اندیشہ ہے کہ اس کچرے میں 14 فیصد تک خطرناک فضلہ ہو سکتا ہے اور صورتحال یہ ہے کہ ہمارے پاس اس کو الگ کرنے کی کوئی جدید ٹیکنالوجی ہی موجود نہیں ہے۔ اس سوال پر کہ آیا یہ تمام چیزیں جاننے کے باوجود پاکستان اس خطرناک فضلے کو درآمد کرنے کی اجازت کیوں دے رہا ہے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس تمام ریکارڈ آگیا ہے، اس مماملے کی تحقیقات کی جائیں گی۔ دوسری جانب سرینیٹڑ تاج حیدر نے ابھی اس چونکا دینے والی خبر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بات حقیقیت ہے کہ پاکستان میں بیرون ممالک سے ایک کوڑا کرکٹ درآمد کر رہا ہے جس میں خطرناک قسم کا فضلہ موجود رہا ہے۔ لیکن پارلیمانی کمیٹی کو اس بارے میں تفصیلی معلومات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ خطرناک فضلے کو عام طریقوں سے ٹھکانے نہیں لگایا جا سکتا۔ خطرناک فضلہ کی ریگولیٹری حکام کے ذریعہ ایسے درج مواد کے طور پر درجہ بند کی جاتی ہے جو غیر متعین ذرائع سے نکلتا ہے یا اس میں رد شدہ کیمیائی مصنوعات شامل ہوتی ہیں۔ وزارت ماحولیات کا کہنا ہے کہ پاکستان خطرناک فضلہ کی باسل کنونشن کا دستخط کنندہ ہے۔ سرحد پار نقل و حرکت کے کنٹرول سے متعلق ادارہ ہے۔ جو اس کو ٹھکانے لگانے اور درآمد کرنے پر پابندی لگاتا ہے۔ لیکن بعض اوقات عام فضلہ خطرناک فضلہ کے ساتھ مل جاتا ہے، مثال کے طور پر پلاسٹک کے فضلے میں طبی فضلہ بھی شامل ہو سکتا ہے۔ 2019ء میں پلاسٹک کے فضلے کے 624 کنٹینرز جو ہم نے امریکآ سے درآمد کئے تھے وہ آلودہ تھے۔ جس کی ہم نے باقاعدہ شکایت درج کرائی۔ اس کے علاوہ ترقی یافتہ ممالک کے پاس خطرناک فضلے کو ٹھکانے لگانے یا پھینکنے کیلئے جگہ کی کمی ہوتی ہے، اس کی ری سائیکلنگ بھی مہنگی۔ دوسری طرف، پاکستان جیسے ممالک کو عام فضلہ جیسے کمپریسر سکریپ، ایلومینیم اسکریپ، پلاسٹک سکریپ اور لیڈ سکریپ کی ضرورت ہوتی ہے جو پنکھے، کیبلز، موٹرز، فائبر، کھڑکیاں اور دروازے جیسی اشیاء تیار کرنے کے لیے خام مال کے طور پر کام کرتے ہیں۔ رکن پارلیمان کشور زہرہ نے اس معاملے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے ماحولیاتی مسائل پر کبھی توجہ نہیں دی۔ گذشتہ چند سالوں میں ملک میں جو کئی بیماریوں کے پھیلیں، ان کا تعلق خطرناک فضلہ کیہ ڈمپنگ سے ہو سکتا ہے۔ ہمیں اس وقت تک مزید فضلہ درآمد نہیں کرنا چاہیے جب تک کہ ہمیں کچرے کو الگ کرنے کی ٹیکنالوجی حاصل نہ ہو جائے۔ اگر دوسرے ممالک اپنا فضلہ ہمارے لیے درآمد کرنا چاہتے ہیں، تو انہیں اسے 'غیر مضر فضلہ' قرار دینا چاہیے۔ بشکریہ: ڈوئچے ویلے
ایڈیٹر

احمد علی کیف نے یونیورسٹی آف لاہور سے ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ پبلک نیوز کا حصہ بننے سے قبل 24 نیوز اور سٹی 42 کا بطور ویب کانٹینٹ ٹیم لیڈ حصہ رہ چکے ہیں۔