ویب ڈیسک: بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں بارشوں کی تباہ کاریاں جاری، جس کے باعث انفرا اسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا، سینکڑوں کچے مکانات ڈھ گئے، کوئٹہ چمن شاہراہ بھی کئی جگہ سے بہہ گئی، طوفانی بارشوں کے باعث صوبے کے کئی اضلاع میں موبائل فون، انٹرنیٹ سروسز اور بجلی کی سپلائی معطل ہوگئی جبکہ بارش اور سیلاب کے باعث حادثات میں مزید 3 افراد ہلاک جاں بحق ہوگئے، جاں بحق افراد کی تعداد 33 ہوگئی۔
تفصیلات کے مطابق سمندری طوفان اسنیٰ کے اثرات بلوچستان میں نظر آنے لگے، بلوچستان کے اضلاع زیارت، قلعہ سیف اللہ، خضدار، لورالائی، جھل مگسی، سبی، جعفر آباد، نصیر آباد، لسبیلہ اور بولان میں طوفانی بارشوں کے بعد نشیبی علاقے زیرآب آگئے۔
صوبائی حکومت نے قلات، زیارت، صحبت پور، لسبیلہ، آواران، جعفرآباد، اوستہ محمد، لورالائی اور چاغی کے بعد جھل مگسی کو بھی آفت زدہ قرار دے دیا۔
طوفانی بارشوں کے باعث صوبے کے کئی اضلاع میں موبائل فون، انٹرنیٹ سروسز اور بجلی کی سپلائی معطل ہے، حکام نے بالائی علاقوں میں لیویز وائرلیس سسٹم کے ذریعے رابطوں کی کوشش کی۔
چمن، قلعہ عبداللہ، قلعہ سیف اللہ اور زیارت میں سیلاب سے باغات اور فصلوں کونقصان پہنچا ہے، چاروں اضلاع میں کئی کلو میٹر سڑکیں، پل اور متعدد گھر ریلوں میں بہہ گئے۔
حکومتی کنٹرول روم کے مطابق قلعہ عبداللہ اور قلعہ سیف اللہ میں سینکڑوں بے گھر افراد کھلے آسمان تلے موجود ہیں، بارش سے مزید 3 افراد جان سے گئے۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق یکم جولائی سے اب تک بارشوں سے 13 بچوں سیمت 33 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں جبکہ 15 افراد زخمی ہوئے جبکہ بارشوں کے دوران 11 بچوں سمیت 15 افراد زخمی ہوئے۔
بارشوں سے 558 گھر مکمل منہدم اور 13 ہزار986 گھروں کو جزوی نقصان پہنچا، بارشوں سے ایک لاکھ 9 ہزار 903 افراد متاثر ہوئے۔
صوبے میں طوفانی بارشوں سے 58 ہزار 799 ایکڑ رقبے پر کاشت فصلیں تباہ ہوگئیں، سیلابی ریلے سے 373 مویشی ہلاک ہوئے جبکہ قومی شاہراہ پر قائم 7 پلوں کو بھی نقصان پہنچا۔
شدید بارش کے بعد کوئٹہ چمن ریلوے لائن کا راستہ بھی بند ہوگیا، خوجک ٹنل سیلابی پانی کے ساتھ آنے والی مٹی سے بھر گئی جبکہ ضلع ہرنائی کا زمینی رابطہ کٹ گیا۔
بولان کےعلاقے میں تباہ ہونے والی گیس لائن پر پانی کی سطع کم ہونے کے بعد مرمتی کام شروع ہوگیا جبکہ کوئٹہ میں گیس کی فراہمی بحال ہوگئی۔
ربی کینال میں شگاف پڑنے سے درجنوں دیہات زیرِ آب آگئے جبکہ سندھ بلوچستان سرحد پر لیویز چیک پوسٹ بھی سیلابی ریلے میں بہہ گئی۔
سندھ میں بارش نے جھل تھل ایک کردیا
سندھ میں بارش نے جھل تھل ایک کردیا، سندھ کے کئی شہرپانی پانی ہوگئے، پنوعاقل، جامشورو، قمبرشہداد کوٹ، ٹھل، ٹھٹھہ اور بدین میں خوب بارش برسی۔
پنوعاقل میں خوب بارش برسی، جس کے باعث سڑکوں پر 2 فٹ تک بارش کا پانی جمع ہوگیا، بارش ختم ہوئے 2 روز گزر جانے پر بھی ٹاون کمیٹی عملہ نکاسی آب یقینی نہ بناسکا، بازار کی سڑکوں پر بارش کا پانی جمع ہونے سے سیوریج سسٹم بند ہوگیا، جس پر تاجر سراپہ احتجاج بن گئے۔
جامشورو میں موسلادھار بارش وقفے وقفے سے جاری ہے، ضلع انتظامیہ نکاسی آب کرنے میں مکمل طور پر ناکام علاقے مکینوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔
قمبر شہداد کوٹ میں حالیہ بارشوں سے زیرآب آنے والے علاقوں میں تاحال پانی موجود ہے جبکہ کئی مکین بارشوں سے مکانات گرنے کے بعد حکومتی امداد کے منتظر ہیں۔
ٹھل میں وقفے وقفے سے جاری بارش نے جہاں تباہی مچادی وہاں نشیبی علاقے بھی زیر آب آگئے ہیں اور بارش کا پانی تحصیل ہیڈکواٹر اسپتال میں داخل ہونے کی وجہ مریضوں اور اہل علاقہ کوبھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
ضلع بدین میں ہالیہ ہونی والی بارشوں نے ہر طرف تباہی مچادی ہے، بارشوں کے باعث جہاں نظام زندگی مفلوج ہوی ہے تو وہاں سیم نالوں میں پڑنے والے شگافوں ہزاروں ایکڑ فصلیں تباہ کر دی۔
ضلع بدین میں اور اس کے گردونواح میں ہونے والی تیز بارشوں کے باعث ضلع کے چھوٹے ایک سو سے زائد سیم نالوں پانی کے بھاؤ میں اضافے کے باعث شگاف پڑنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
شگافوں کے باعث کاشت کی گئی ہزاروں ایکڑ کپاس، مرچ، ٹماٹر، پیاز اور چاول فصلیں زیر آب آ گئی ہے جس سے کاشتکاروں کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا ہے، فصلیں زیر آب آنے کی وجہ سیم نالوں کی صفائی اور کھاٹی نہ ہونا ہے۔
انتظامیہ کی جانب سے کی گئی غفلت کے باعث کاشتکاروں کو بڑا نقصان پہنچا ہے اور اگر ابھی بھی نکاس آب کو بحال کرکے پانی کا اخراج نہیں کروایا گیا تو آنے والے سیزن میں بھی فصلوں کی بوائی متاثر ہو سکتی ہے۔
ٹھٹھہ میں بارش کے باعث دریا ئے سندھ میں سجاول کے مقام پر پانی کی سطح میں اضافے کے بعد کچے کےعلاقے زیر آب آگئے، کچے کے رہائشی نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے۔
شہداد کوٹ میں بھی بارش نے تباہی مچادی کئی علاقے پانی میں ڈوب گئے، کھیر تھر پہاڑی علاقوں میں ندیاں بپھر گئیں، ندیوں میں طغیانی کی وجہ سے غیبی دیرو کے متعدد دیہاتوں میں تاحال پانی موجود ہے جبکہ علاقہ مکینوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔
زمینی راستہ منقطع ہونے باعث آنے جانے کے لیے کشتیاں استعمال کرنے لگے، کجلو مارفانی، اچھو تڑ، غازی خان چانڈیو،غفور منگیانی، ربن چانڈیو سمیت دیگر دیہاتوں کا زمینی راستہ منقطع ہوگیا۔