ویب ڈیسک: کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے مصطفی عامر قتل کیس میں گرفتار ملزم ارمغان کے جسمانی ریمانڈ میں 6 دن کی توسیع کردی جبکہ ملزم شیراز کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے ڈیفنس میں اغوا کے بعد قتل ہونے والے مصطفیٰ عامر کیس میں گرفتار ملزمان ارمغان اور شیراز کے جسمانی ریمانڈ کی مدت ختم ہونے کے بعد دونوں کو انسداد دہشت گردی میں پیش کردیا گیا۔
ملزم ارمغان نے کہا کہ 15 دن سے یہی کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ میڈیکل کروایا ہے۔
میڈیکل آئی اونے کہا کہ جی کروایا ہے۔
وکیل ملزمان نے کہا کہ پہلے دن تشدد کیا تھا،15 دن ہوچکے تفتیش مکمل ہو گئی ہے،اب ان کے پاس ریمارنڈ کا کوئی جواز نہیں۔
ملزم ارمغان نے کہا کہ مجھ سے زبردستی انگوٹھا لگوایا ہے۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ ملزم نے آلہ قتل سے دیگر کو بھی زخمی کیا ریکور کروانا ہے،آلہ قتل بر آمد کرواکر کراچی سے باہر گیا اس کے شواہد لینا ہے،جدید اسلحہ برآمد ہوا ہے۔ پورے ملک میں لینک پھیل گیا ہے۔جو چیزیں رہ گئی وہ مکمل کرنا چاہیے ہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ کتنی ایف آئی آر ہیں۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ ہمارے پاس 4 ہیں دیگر اداروں کی بھی ہیں۔
وکیل ملزم نے کہا کہ ملزم کے خلاف کوئی اور ایف آئی تو نہیں ہیں؟۔17 دن سے ان کے پاس ہے۔ جیل بھیج دیا جائے اور میڈیکل کروایا جائے۔15 دن میں چالان پیش کرنا چاہیے 17 دن تو ان کے پاس ہوگئے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ چالان کب دیں گے؟۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ سر۔ تفتیش مکمل تو ہوجائے 13 دن سے ہمارے پاس ہے۔
وکیل ملزم نے کہا کہ ہمیں میڈیکل کرانے دیا جائے یہ تو آئی او نے کیا ہے۔
تفتیشی افسر کی جانب سے ملزم کے جسمانی ریمانڈ میں 6 روز کی توسیع کی استدعا کی گئی۔
بعد ازاں عدالت نے ملزم کو 6 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کو تحویل میں دے دیا۔
عدالت نے ملزم شیراز کو عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا
دوسری جانب عدالت نے استفسار کیا کہ شیراز آپ کا وکیل کون ہے؟
ملزم شیراز کے وکیل نے کہا کہ گواہ کو ملزم بنادیا ہے۔شیراز کو ڈرا دھمکایا جارہا ہے۔
عدالت نے آئی او سے استفسار کیا کہ یہ کیس کس کے دائرہ اختیار میں ہے؟۔
جس پر آئی او نے بتایا کہ اسپیشل کیس ہے کورٹ آرڈر کے تحت آپ کے پاس ہے۔
تفتیشی افسر نے کہا کہ ملزم شیراز کو اعترافی بیان کے جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا تھا۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اعترافی بیان کے بعد ملزم کو جیل بھیجنا چاہیے تھا اعتراف کرنے یا نا کرے ۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ ملزم شیراز کے بیان کی کیا اہمیت ہے ہمیں ابھی تک سمجھ نہیں آیا ہے۔
عدالت نے ریمار کس دیئے کہ ملزم شیراز کو عدالت میں تفتیشی افسر نے پیش کیا ہے۔ تفتیشی افسر نے ملزم شیراز کو تین فروری کو اعترافی بیان کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا تھا،قانون کے مطابق ملزم شیراز کو جوڈیشل مجسٹریٹ کو عدالتی ریمانڈ پر بھیجنا چاہیے تھا۔ جوڈیشل مجسٹریٹ نے ملزم شیراز کو اے ٹی سی کورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
بعدازاں عدالت نے ملزم شیراز کو عدالتی تحویل میں جیل بھیج دیا جبکہ ملزم ارمغان کے جسمانی ریمانڈ میں 6 دن کی توسیع کردی۔
یاد رہے کہ گزشتہ سماعت پر پولیس کی جانب سےعدالت میں ملزمان کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی تھی جس کے بعد عدالت نے دونوں کا 5 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے ملزمان کو پولیس کے حوالے کردیا تھا تاہم ملزم ارمغان اور شیراز کے جسمانی ریمانڈ کی مدت آج ختم ہوگئی۔
واضح رہے کہ پولیس قتل اور پولیس مقابلے کے مقدمات میں دونوں ملزمان ارمغان اور شیراز کا 3 بار ریمانڈ حاصل کرچکی ہے۔
کیس کا پس منظر
یاد رہے کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سی آئی اے مقدس حیدر نے 14 فروری کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مقتول مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے سے لاپتا ہوا تھا، مقتول کی والدہ نے اگلے روز بیٹے کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا۔
25 جنوری کو مصطفیٰ کی والدہ کو امریکی نمبر سے 2 کروڑ روپے تاوان کی کال موصول ہونے کے بعد مقدمے میں اغوا برائے تاوان کی دفعات شامل کی گئی تھیں اور مقدمہ اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) منتقل کیا گیا تھا۔
منشیات کے گندے دھندے کے بڑے کردار بے نقاب، منشیات کیس کے ملزم ساحر حسین نے اسپیشلائزڈ یونٹ کو سب بتا دیا
بعد ازاں، اے وی سی سی نے 9 فروری کو ڈیفنس میں واقع ملزم کی رہائشگاہ پر چھاپہ مارا تھا تاہم ملزم نے پولیس پر فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں ڈی ایس پی اے وی سی سی احسن ذوالفقار اور ان کا محافظ زخمی ہوگیا تھا۔
ملزم کو کئی گھنٹے کی کوششوں کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد پولیس نے جسمانی ریمانڈ لینے کے لیے گرفتار ملزم کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا تو جج نے ملزم کا ریمانڈ دینے کے بجائے اسے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا، جس کے خلاف سندھ پولیس نے عدالت عالیہ میں اپیل دائر کی تھی۔
ملزم نے ابتدائی تفیش میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے مصطفیٰ عامر کو قتل کرنے کے بعد لاش ملیر کے علاقے میں پھینک دی تھی لیکن بعدازاں اپنے بیان سے منحرف ہوگیا تھا، بعدازاں اے وی سی سی اور سٹیزنز پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) اور وفاقی حساس ادارے کی مشترکہ کوششوں سے ملزم کے دوست شیراز کی گرفتاری عمل میں آئی تھی جس نے اعتراف کیا تھا کہ ارمغان نے اس کی ملی بھگت سے مصطفیٰ عامر کو 6 جنوری کو گھر میں تشدد کا نشانہ بناکر قتل کرنے کے بعد لاش اسی کی گاڑی میں حب لے جانے کے بعد نذرآتش کردی تھی۔
ملزم شیراز کی نشاندہی کے بعد پولیس نے مقتول کی جلی ہوئی گاڑی حب سے برآمد کرلی تھی جبکہ حب پولیس مقتول کی لاش کو پہلے ہی برآمد کرکے رفاہی ادارے کے حوالے کرچکی تھی جسے امانتاً دفن کردیا گیا تھا، مصطفیٰ کی لاش ملنے کے بعد مقدمے میں قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
تفتیشی افسران کے مطابق حب پولیس نے ڈی این اے نمونے لینے کے بعد لاش ایدھی کے حوالے کی تھی، گرفتار کیا گیا دوسرا ملزم شیراز ارمغان کے پاس کام کرتا تھا، قتل کے منصوبے اور لاش چھپانےکی منصوبہ بندی میں شیراز شامل تھا۔
کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ مقتول مصطفیٰ کا اصل موبائل فون تاحال نہیں ملا ہے، ملزم ارمغان سے لڑکی کی تفصیلات، آلہ قتل اور موبائل فون کے حوالے سے مزید تفصیلات حاصل کی جائیں گی۔
بعدازاں پولیس نے لاش کے پوسٹ مارٹم کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں قبر کشائی کی درخواست دی تھی جس پر گزشتہ روز عدالت نے قبر کشائی کا حکم جاری کردیا تھا۔
دریں اثنا، 15 فروری کو ڈان نیوز کی رپورٹ میں تفتیشی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑے کی وجہ ایک لڑکی تھی جو 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی تھی، لڑکی سے انٹرپول کے ذریعے رابطے کی کوشش کی جارہی ہے۔
تفتیشی حکام نے بتایا کہ ملزم ارمغان اور مقتول مصطفیٰ دونوں دوست تھے، لڑکی پر مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑا نیو ایئر نائٹ پر شروع ہوا تھا، تلخ کلامی کے بعد ارمغان نے مصطفیٰ اور لڑکی کو مارنے کی دھمکی دی تھی۔
پولیس حکام نے بتایا کہ ارمغان نے 6 جنوری کو مصطفیٰ کو بلایا اور تشدد کا نشانہ بنایا، لڑکی 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی جس سے انٹرپول کے ذریعے رابطہ کیا جارہا ہے، کیس کے لیے لڑکی کا بیان ضروری ہے۔