ویب ڈیسک :بھارت کی ایک عدالت نے قرار دیا ہے کہ اجنبی خاتون کے لیے لفظ ’’ ڈارلنگ’’ کا استعمال جنسی ہراسانی کے مترادف ہے اور قابل سزا جرم ہے۔
رپورٹ کے مطابق کول کتہ ہائی کورٹ کے جسٹس جے سین گپتا نے اپنے دوران سماعت اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ لفظ ’ ڈارلنگ‘ کا مفہوم جنسی نوعیت کا ہے اور بھارتی سماج کسی مرد کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ ’ناواقف خواتین‘ کو مخاطب کرنے کے لیے اس طرح کا اظہار ’خوشی سے‘ کرے۔
جسٹس سین گپتا کا سنگل بینچ ایک اپیل پر سماعت کر رہا تھا، جس میں مبینہ طور پر نشے میں دھت ایک شخص پر نو سال قبل ایک خاتون کانسٹیبل کو ’ ڈارلنگ‘ کہنے کا الزام تھا۔
یہ واقعہ اکتوبر 2015 میں جزائر انڈمان میں پیش آیا تھا، جب امن و امان برقرار رکھنے کے لیے تعینات مقامی پولیس کی ایک ٹیم نے ہنگامہ کرنے پر جنک رام کو حراست میں لیا تھا۔
مبینہ طور پر رام نے ہندی زبان میں ایک خاتون کانسٹیبل سے پوچھا: ’ ڈارلنگ، کیا آپ جرمانہ عائد کرنے آئی ہیں؟‘
استغاثہ نے 11 گواہ پیش کیے جنہوں نے قانونی کارروائی کے دوران خاتون کے بیان کی تصدیق کی۔
انڈیا ٹوڈے کے مطابق جج نے کہا، ’کسی اجنبی خاتون، چاہے وہ پولیس کانسٹیبل ہو یا نہ ہو، کو کسی مرد کا سرعام لفظ ’ ڈارلنگ‘ کے ساتھ مخاطب کرنا قابل اعتراض ہے، چاہے وہ شراب کے نشے میں دھت ہو یا نہ ہو، اور استعمال کیا جانے والا لفظ بنیادی طور پر جنسی نوعیت کا تبصرہ ہے۔‘
وکیل دفاع نے دلیل دی کہ رام نے مذاق کے طور پر الفاظ استعمال کیے تھے اور لفظ ’ ڈارلنگ‘ عام طور پر انڈین معاشرے میں بغیر کسی جنسی ارادے کے استعمال کیا جاتا ہے۔ مدعا علیہ نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ دوران واقعہ وہ نشے میں تھا۔
اس کے جواب میں عدالت نے کہا، ’اگر ایسا سنجیدہ حالت میں کیا جاتا، تو جرم کی سنگینی شاید اور بھی زیادہ ہوتی۔‘
عدالت نے آئی پی سی کی دفعہ 354 اے (عورت کی حرمت کو ٹھیس پہنچانا) اور 509 (لفظ، اشارہ یا فعل جس کا مقصد عورت کی توہین کرنا ہو) کے تحت اجنبی خواتین کے خلاف متنازعہ لفظ کا استعمال جرم قرار دیا۔
عدالت نے رام کی جیل کی سزا کم کرکے ایک ماہ کر دی کیونکہ انہوں نے جرم کو ’بڑھاوا‘ نہیں دیا اور یہ الفاظ کہنے کے بعد رک گئے۔