سوشل میڈیا پر پابندی کے خلاف عدالتی جنگ،کیس سماعت کیلئےمقرر

سوشل میڈیا پر پابندی کے خلاف عدالتی جنگ،کیس سماعت کیلئےمقرر
کیپشن: سوشل میڈیا پر پابندی،رجسٹرار آفس کیجانب سےعائد اعتراض ختم

ویب ڈیسک: عدالت نے سوشل میڈیا پر پابندی کے حوالے سے رجسٹرار آفس کی جانب سے عائد اعتراض ختم کردیا۔

تفصیلا ت کے مطابق لاہور ہائیکورٹ میں جسٹس شاہد بلال حسن نے  سوشل میڈیا پر پابندی کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کی، عدالت کی رجسٹرار آفس کوپٹیشن سماعت کےلئے مقرر کرنے کی ہدایت کی ۔

درخواست گزار شاکر محمود کےوکیل اظہر صدیق نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار کا اپنے موقف میں کہنا ہے کہ حکومت نے سوشل میڈیا پر پابندی عائد کر دی ہے،اطلاعات تک رسائی ہر شہری کا بنیادی حق ہے، اطلاعات تک رسائی پر پابندی آئین کے آرٹیکل 19 اور 19 اے کی خلاف ورزی ہے۔

موقف اپنایا گیا کہ حکومت کی جانب سے ٹویٹر پر پابندی عائد کی گئی ہے، حکومت تمام سوشل میڈیا پر عائد پابندیاں ختم کرئے۔

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت سوشل میڈیا پر پابندی کے تمام نوٹیفکیشن کالعدم قرار دینے کا حکم دے۔

درخواست گزار نے  استدعا کی کہ عدالت ایکس کی سروسز کی بندش کو فوری طور پر کھولنے کا حکم دے۔

ٹوئٹر کی بندش کیخلاف درخواست پر سماعت 26 مارچ تک ملتوی

قبل ازیں  اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے صحافی احتشام عباسی کی درخواست پر سماعت کی جس کے دوران پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی ( پی ٹی اے ) کے وکیل عدالت میں پیش ہوئے اور تیاری کیلئے وقت مانگا۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ سندھ ہائیکورٹ میں دائر درخواست پر کیا ہوا؟ وہاں تو توہین عدالت کی درخواست پر سماعت ہونی تھی جس پر وکیل درخواست گزار نے بتایا کہ توہین عدالت کی درخواست پر نوٹس جاری کیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے وکیل پی ٹی اے سے مکالمہ کیا کہ آئندہ سماعت پر واضح جواب جمع کرائیں، واضح جواب ہونا چاہیے، عدالت کو بتائیے گا کہ دراصل ہو کیا رہا ہے۔

وکیل پی ٹی اے نے موقف اختیار کیا کہ ہمارا اس درخواست کے قابل سماعت ہونے پر بھی اعتراض ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جو بھی ہے جس نے بھی کیا ہے لیکن ایک سوشل میڈیا پلیٹ فارم بند ہوا ہے،  میڈیا رپورٹس کے مطابق سندھ میں بھی ڈھیلا ڈھالا ہی کام چل رہا ہے، اسی لیے آپکو کہا ہے کہ اس عدالت میں مفصل جواب جمع کرائیے گا۔

وکیل درخواست گزار کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم بند کرنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی جواب تو آنے دیں اپنے ہتھیار پہلے ہی نہیں دکھا دیئے جاتے،میں اسی لیے زیادہ لمبی تاریخ نہیں ڈال رہا اور جلدی جواب طلب کر رہا ہوں۔

بعدازاں، اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت 26 مارچ تک ملتوی کر دی۔