ویب ڈیسک: ایران نے دمشق میں اپنے سفارتخانے پر حملے کے جواب میں سنیچر کو رات گئے اسرائیل پر 200 سے زائد میزائل اور خودکش ڈرونز داغے ہیں۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ اس نے ایران کی طرف سے داغے گئے میزائلوں اور ڈرونز کی بڑی اکثریت کو اسرائیل کی حدود میں پہنچنے سے قبل ہی ’ایرو ایریئل‘ نامی فضائی دفاعی نظام اور خطے میں موجود اتحادیوں کی مدد سے ناکام بنا دیا ہے۔
اسرائیل کا ’ایرو ایریئل ڈیفنس سسٹم‘ سست رفتار ڈرونز کے بجائے اونچائی سے داغے گئے بیلسٹک میزائلوں کو ناکام بنانے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ اس سے قبل غزہ جنگ کے آغاز میں اسرائیل نے یمن سے داغے گئے حوثی بیلسٹک میزائلوں کو مار گرانے کے لیے بھی ایرو ڈیفنس سسٹم کا استعمال کیا تھا۔
اس مضمون میں ہم نے یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ اسرائیل کا ’ایرو ایریئل ڈیفنس سسٹم‘ کیا ہے، یہ کیسے کام کرتا ہے اور یہ آئرن ڈوم سے کیسے مختلف ہے۔
اسرائیل کا جدید ترین ’ایرو ایریئل‘ دفاعی نظام کیا ہے؟
گذشتہ برس اسرائیلی فوج (آئی ڈی ایف) کا کہنا تھا کہ اس نے ’ایرو‘ نامی فضائی دفاعی نظام کی مدد سے بحیرۂ احمر کے علاقے میں زمین سے زمین تک مار کرنے والے میزائل کو مار گرایا ہے۔
22 نومبر 2023 کو پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں اس دفاعی نظام کو متعارف کرواتے ہوئے آئی ڈی ایف کا کہنا تھا کہ ’ایرو ایریئل ڈیفنس سسٹم‘ طویل فاصلے سے داغے گئے بیلسٹک میزائلوں کو اسرائیل کے لیے خطرہ بننے سے روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
یہ دفاعی نظام اسرائیل کا جدید ترین ’انٹرسیپٹر‘ (میزائل یا ڈرون کو اپنے ہدف پر پہنچنے سے قبل ہی مار گرانے کی صلاحیت) ہے جو انتہائی درستگی کے ساتھ خلا سے بھی حملے کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اسی ویڈیو بیان میں آئی ڈی ایف نے یہ بھی بتایا تھا کہ انھوں نے اس ماہ کے آغاز میں (نومبر 2023) اس دفاعی نظام کا استعمال کرتے ہوئے بحیرۂ احمر سے جنوبی اسرائیل کے قریب داغے گئے متعدد لانگ رینج (طویل فاصلے تک مار کرنے والے) میزائلوں کو نشانہ بنا کر تباہ کیا ہے۔
آئی ڈی ایف نے ’ایرو ایریئل ڈیفنس سسٹم‘ کو ایک اہم تکنیکی سنگ میل قرار دیا ہے جس میں 2000 کلومیٹر سے زیادہ دور سے داغے گئے میزائلوں کو روکنے کی صلاحیت ہے۔
’ایرو ایریئل ڈیفنس سسٹم‘ کیسے کام کرتا ہے؟
اسرائیل ایرو سپیس انڈسٹریز (آئی اے آئی) کے مطابق ایرو ویپن سسٹم (اے ڈبلیو ایس) دنیا کا جدید ترین اینٹی ٹیکٹیکل بیلسٹک میزائل ڈیفنس سسٹم ہے۔ اس سسٹم میں ایرو ٹو اور ایرو تھری دونوں میزائل شامل ہیں جو اسے مختصر، درمیانے اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائلوں کو روکنے کے قابل بناتے ہیں۔
ایئر فورس ٹیکنالوجی کے مطابق ایرو ٹو انٹرسیپٹر، جسے اسرائیلی کمپنی آئی اے آئی نے ڈیزائن کیا تھا، اس کا ایک لانچر تل ابیب کے قریب جبکہ دوسری حیفہ کے جنوب میں نصب کیا گیا ہے۔
یہ نظام مختصر اور درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کو روکنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے اور 2000 اور 2004 میں نصب کیے جانے کے بعد اس پر ایک درجن سے زیادہ کامیاب تجربات کیے گئے ہیں۔
ایرو تھری، امریکی دفاعی کمپنی بوئنگ اور آئی اے آئی نے مشترکہ طور پر تیار کیا ہے اور یہ ایرو ٹو سسٹم سے زیادہ رفتار اور زیادہ دورتک مار کرنے کی صلاحیت فراہم کرتا ہے۔ ایرو تھری ایک ایسا دفاعی میزائل نظام ہے جو زمین سے خلا میں بھی ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ایرو تھری سسٹم کا پہلا کامیاب تجربہ 2013 میں کیا گیا، اس کے بعد دوسرا تجربہ جنوری 2014 میں اسرائیل کی وزارت دفاع اور امریکی میزائل ڈیفنس ایجنسی نے مکمل کیا۔
’ایرو ایریئل کے نظام کو سمجھنے کے لیے بی بی سی نے اسلام آباد میں مقیم میزائل ایکسپرٹ سید محمد علی سے بات کی ہے۔
سید محمد علی کے مطابق دنیا کا کوئی بھی ائیر ڈیفنس یا میزائل ڈیفنس سسٹم تین بنیادی عناصر پر مشتمل ہوتا ہے:
ریڈار سسٹم
کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم
انٹرسپٹرز یا میزائل
ریڈار سسٹم کا بنیادی کام طویل فاصلے سے مکمل فضائی حدود کی نگرانی کرنا ہے، یہ میزائل اور طیاروں کے مابین دوست اور دشمن کی تفریق کے ساتھ ساتھ اس کی سمت، رفتار اور ممکنہ اہداف کے تعین کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم میں ریڈار کے حوالے سے تمام معلومات 24 گھنٹے رئیل ٹائم میں آپریٹرز تک پہنچ رہی ہوتی ہیں۔
سید محمد علی کے مطابق میزائل ڈیفنس کے ایڈوانس سسٹم طویل فاصلے اور تیزی سے پرواز کرنے والے کروز اور بیلسٹک میزائل کے خلاف ڈیزائن کیے جاتے ہیں لہذا صرف ریڈار پر ان کی معلومات اور اہداف کے تعین کا انحصار نہیں ہوتا بلکہ ڈیٹا لنک کے ذریعے فضا میں موجود ارلی وارننگ ائیر کرافٹ سسٹم کے علاوہ سیٹیلائٹ کا ڈیٹا بھی کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم تک پہنچ رہا ہوتا ہے تاکہ ریڈار جیم ہونے کی صورت میں بھی دیگر ذرائع سے وارننگ ان تک پہنچ سکے۔
کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم میں کیے جانے والے اہم فیصلوں میں اہداف کی ترجیح بھی شامل ہے۔ اس کی مثال دیتے ہوئے سید محمد علی کا کہنا ہے کہ جیسے کل جتنے بڑے پیمانے پر حملہ کیا گیا جس میں 200 سے زائد میزائل اور ڈرون داغے گئے، اس صورتحال میں اس نظام میں ڈرونز یا میزائل کی سمت، رفتار اور پرواز کی نوعیت کے لحاظ سے اہداف کی ترجیح کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہوتی ہے یعنی کونسے ہدف اہم ہیں جنھیں نشانہ بنایا جا سکتا ہے اور کونسے کم اہم ہیں۔
سید محمد علی کا کہنا ہے اس سب کا انحصار ’دفاعی حکمتِ عملی‘ پر منحصر ہے، یعنی اگر کوئی میزائل اسرائیل کے ایٹمی ری اکٹر کی طرف جا رہا ہے تو یقیناً اسرائیل اسے زیادہ اہمیت دے گا۔ کن حساس اہداف کو بچانا ہے، اس کا فیصلہ تو جنگ سے پہلے کیا جاتا ہے اور اسی بنیاد پر دفاعی نظام ڈیزائن کیا جاتا ہے لیکن کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم میں اہم فیصلہ یہ کیا جاتا ہے کہ 100 میزائل داغے جانے کی صورت میں کونسے ایسے ہیں جنھیں سب سے پہلے تباہ کیا جائے۔
کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کا رابطہ انٹرسپیٹرز سے ہوتا ہے اور اسرائیل کے پاس کئی طرح کے انٹرسیپٹرز موجود ہیں جن میں ایرو ون، ٹو، تھری وغیرہ شامل ہیں۔ اسرائیل کا فضائی دفاعی نظام ’کئی تہوں‘ پر مشتمل ہے اور یہ اتنا جدید ہے کہ اس میں ایروز سے لے کر آئرن ڈوم، ڈیوڈ سلنگ وغیرہ بھی شامل ہیں جو ڈرون، کروز میزائل اور بیلسٹک میزائل کے خلاف کام کرتا ہے۔
سید محمد علی کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا رقبہ جتنا کم ہے ان کا رسپانس ٹائم بھی اتنا ہی کم ہے اسی لیے انھوں نے ایک ہمہ جہت اور پیچیدہ ائیر اور میزائل ڈیفینس سسٹم تیار کیا ہے۔
ایرو ایریئل کی کمزوریاں اور کامیابی کی شرح کتنی ہے؟
اسرائیلی حکام کا دعویٰ ہے کہ آئرن ڈوم کی کامیابی کی شرح تقریباً 90 فیصد ہے تو ایرو ایئرل کی کامیابی یا ناکامی کے متعلق ہم کیا جانتے ہیں، اس کے جواب میں سید محمد علی کا کہنا ہے کہ ایرو ایریئل یا اسرائیل کے دیگر دفاعی نظام کی کامیابی یا ناکامی کا دارومدار صرف ٹیکنالوجی کی صلاحیت پر نہیں بلکہ دشمن کی دفاعی حکمتِ عملی پر ہے۔
’اس کا مطلب یہ ہے کہ ضروری نہیں ہے کہ ایران نے جو ڈرونز اور میزائل لانچ کیے ہیں ان کا مقصد اسرائیل کو بہت زیادہ نقصان پہنچانا ہو، اس کا مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایران جنگ لمبی چلنے کی توقع کر رہا ہے لہذا اس صورتحال میں حملے کے پہلے مرحلے میں وہ ایسے میزائل اور ڈرون لانچ کرے گا جن کے متعلق ایران کو معلوم ہے کہ اسرائیل انھیں تباہ کر دے گا اور یہ اہداف تک نہیں پہنچیں گے مگر اس کا مقصد اسرائیل کو نقصان پہنچانا نہیں بلکہ اسرائیل کے ائیر ڈیفنس سسٹم کے میزائلز کے ذخیرے کو ضائع کروانا ہے۔‘
اس کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے ایران جان بوجھ کر کم تکنیکی صلاحیت والے ڈرون یا میزائل داغے، یعنی ایرانی ڈرون 20 ہزار ڈالر کا ہو مگر اس کے خلاف اسرائیل پانچ سے 10 ملین ڈالر کے میزائل مار رہا ہو اور اگر یہ جنگ لمبی چلتی ہے اور ایران کم تکنیکی صلاحیت والے 1000 سستے ڈرون مار رہا ہے جن کی کل قیمت ایک ایف 16 کے برابر بھی نہیں مگر اس کے جواب میں وہ اسرائیل کے بہت جدید اور مہنگے ایرو ون، ٹو، تھری ضائع کروانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس نے اسرائیل کے فضائی دفاعی نظام کو بہت بڑا نقصان پہنچا دیا ہے اور اگر جنگ لمبی چلتی ہے تو ممکن ہے کہ دوسرے یا تیسرے مرحلے میں ایران ایسے ڈرون یا میزائل داغے جو زیادہ کامیابی کے ساتھ اسرائیل کی دفاعی شیلڈ کو توڑ کر ہدف کو نشانہ بنا سکیں۔
تو کیا ایران یہ جائزہ بھی لینا چاہتا ہے کہ اسرائیل کے دفاعی نظام میں انٹرسیپٹ کرنے کی کتنی صلاحیت ہے؟ اس کے جواب میں سید محمد علی کہتے ہیں یقیناً یہ بھی ایران کا ایک مقصد ہے، وہ اسرائیل کی صلاحیتوں اور میزائلوں کے ذخیرے کا جائزہ لینا چاہ رہا ہے۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسرائیل کو خود بھی اس کا ادراک ہے طویل حملوں سے ان کے میزائل کے دفاعی نظام کی صلاحیت میں کمی آ سکتی ہے اور فوری طور پر اور آسانی سے ان کا متبادل میسر نہیں ہو گا۔
’ایرو ایریئل ڈیفنس سسٹم‘ کی کامیابی یا ناکامی کی شرح کے متعلق مزید بات کرتے ہوئے سید محمد علی بتاتے ہیں کہ میزائل ڈیفینس سسٹم کو ناکام یا ناکارہ کرنے کے بہت سے طریقے ہیں جن میں دشمن کی حکمتِ عملی تو شامل ہے ہی مگر جدید دنیا کے دفاعی نظام میں بیلیسٹک اور میزائل ڈیفینس سسٹم کو ناکام بنانے کی دو صلاحیتیں ہوتی ہیں:
ایم آر وی maneuverable reentry vehicle MARV یا MaRV
ایم آئی آر ویز Multiple Independently-targetable Reentry Vehicles یا MIRVs
ایم آر وی نظام میں میزائل لانچ کرنے کے بعد جب وہ فضا میں اپنے ٹارگٹ پر دوبارہ آتا ہے تو اس کی ری انٹری وہیکل بہت تیزی کے ساتھ اپنی سمت تبدیل کرتی ہے تاکہ کوئی میزائل ڈیفینس شیلڈ یا بیلسٹک میزائل سسٹم یا اس کے انٹرسیپٹرز فائر کیے جائیں تو وہ انھیں کنفیوژ کر سکے بالکل ویسے ہی جیسے ایک فاسٹ بالر گیند کو سوئنگ کرتا ہے جس میں وہ بیٹسمین کے ڈیفینس کو توڑنے کے لیے اپنی رفتار کے ساتھ سوئنگ اور سیم پر بھی انحصار کرتا ہے۔
پاکستان کا ابابیل میزائل سسٹم بھی ایم آئی آر ویز پر مشتمل ہے۔ ایم آئی آر ویز کا مطلب ہے اس میزائل میں کئی وار ہیڈز ہوتے ہیں جو آزادانہ طور پر پروگریمڈ ہوتے ہیں اور آزادانہ طور پر اپنے اپنے اہداف کی جانب جاتے ہیں اور ہر ایک کا فلائٹ پاتھ مختلف ہوتا ہے۔ اخری مرحلے میں جب میزائل دوبارہ اپنے ٹارگٹ کی جانب فضا میں دوبارہ داخل ہوتا ہے تو اس پر اگر میزائل ڈیفینس سسٹم کے تحت میزائل لانچ بھی کیے جائیں تو چونکہ ایک میزائل میں سے کئی ری انٹری ویکلز نکلتی ہیں جو مختلف سمتوں سے ہدف کی جانب بڑھتی ہیں جنھیں ناکام بنانا، ایرو سمیت دنیا کے جدید ترین ذیفینس سسٹم کے لیے تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔
سید محمد علی کے مطابق ایران کے پاس یہ جدید ٹیکنالوجی ہے یا نہیں، اس بارے میں تو ہم نہیں جانتے تاہم یہ توقع کہ جنگ کے اوائل میں ہی وہ اپنے بہترین ہتھیار استعمال کر لے گا، غیر حقییقت پسندانہ ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ جنگ طوالت اختیار کرتی ہے تو اسرائیل اور ایران دونوں اپنے بہترین ہتھیار شروع میں استعمال نہیں کریں گے، وہ آہستہ آہستہ دوسرے کے دفاعی نظام کو منتشر، کنفیوز، تھکانے اور ضائع کرنے کی کوششوں میں ہوں گے۔
ایرو ایریئل، آئرن ڈوم سے کیسے مختلف ہے؟
اسرائیل کا فضائی دفاعی نظام کئی تہوں پر مشتمل ہے۔ جہاں آئرن ڈوم چھوٹے حملوں کو روکتا ہے، وہیں ایرو ایریئل بڑے حملوں کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ آئرن ڈوم اور ایرو میزائل سسٹم اسرائیل کے مرکزی ڈیوڈ سلنگ دفاعی پروگرام کا حصہ ہیں اور یہ اسرائیلی فضائیہ کو مختلف نوعیت کے فضائی حملوں کے خلاف حفاظت فراہم کرتے ہیں۔
آئرن ڈوم ان متعدد میزائل شکن نظاموں میں سے ایک ہے جو اسرائیل میں اربوں ڈالر لگا کر نصب کیے گئے ہیں۔
یہ نظام ریڈار کی مدد سے اسرائیل کی جانب داغے گئے راکٹس کو ٹریک کرتا ہے اور ان کو روکنے کے لیے ’انٹرسیپٹ‘ کرنے والے میزائل داغتا ہے۔
یہ ٹیکنالوجی ان راکٹوں میں تفریق کرتی ہے جو زیادہ آبادی والے علاقے کو ہدف بنا رہے یا پھر جو اپنے ہدف پر نہیں پہنچیں گے۔
صرف ان راکٹوں کو روکا جاتا ہے جو کہ زیادہ آبادی والے علاقوں کی جانب آ رہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے یہ نظام مؤثر قرار دیا جاتا ہے۔ اخبار ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق ہر انٹرسیپٹر میزائل ایک لاکھ پچاس ہزار ڈالر کا ہوتا ہے۔