کراچی ( پبلک نیوز) اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں 100 بیسسز پوائنٹس کا اضافہ کردیا۔ شرح سود میں 75۔8 فیصد سے بڑھ کر 75۔9 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ شرح سود میں اضافہ مانیٹری پالیسی اجلاس میں کیا گیا۔ پالیسی ریٹ کو 100بیسس پوائنٹس بڑھا کر 9.75فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ شرح سود میں اضافے سے مہنگائی کے دباؤ سے نمٹنا اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ نمو پائیدار رہے۔ مہنگائی اور تجارتی خسارے میں اضافہ ہوا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق نومبر میں عمومی مہنگائی بڑھ کر 11.5 فیصد ہوگئی۔ شہری اور دیہی علاقوں میں قوزی (core)مہنگائی بھی بڑھ کر بالترتیب 7.6 فیصد اور 8.2 فیصد ہوگئی۔ بیرونی شعبے میں ریکارڈ برآمدات کے باوجود اجناس کی بلند عالمی قیمتوں نے درآمدی بل میں خاصا اضافہ کیا ہے۔ نومبر میں تجارتی خسارہ بڑھ کر 5 ارب ڈالر ہوگیا ہے۔ اعدادوشمار کے حالیہ اجرا سے تصدیق ہوتی ہے کہ مہنگائی اور جاری کھاتے کے خسارے کو معتدل کرنے کے سلسلے میں زری پالیسی کا زور دینا مناسب تھا۔ شرح سود میں اضافہ اور معیشت کے موجودہ منظرنامے کے پیش نظر اور خاص طو رپر مہنگائی اور جاری کھاتےکے حوالے سے اس مالی سال میں نمو کے پیشگوئی کی حدود 4-5 فیصد کی بالائی حد کے قریب رہنے کی توقع ہے۔ اس تخمینے میں آج کے شرح سود کے فیصلے کے متوقع اثر کو شامل رکھا گیا ہے۔ کورونا وائرس کی نئی شکل اومی کرون کے سامنے آنے سے کچھ تشویش ابھرتی ہے لیکن اس مرحلے پر اس کی شدت کے بارے میں محدود معلومات ہیں۔ پاکستان وائرس کی متعدد لہروں سے کامیابی سے نبردآزما ہوا جس سے معیشت کے مثبت منظرنامے کو تقویت ملی۔ مستحکم برآمدات اور ترسیلات کے باوجود جاری کھاتے کا خسارہ اس سال درآمدات بڑھنے کے سبب تیزی سے بڑھا ہے۔ جولائی تا نومبر مالی سال 22ء کے دوران درآمدات بڑھ کر 32.9 ارب ڈالر ہو گئیں جو گذشتہ سال کی اسی مدت میں 19.5 ارب ڈالر رہی تھیں۔ درآمدات میں ہونے والے اس اضافے کا 70 فیصد حصہ تو اجناس کی بین الاقوامی قیمتوں میں تیزی سے اضافے کا نتیجہ ہے۔ خسارہ جی ڈی پی کا تقریباً 4 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے جو ابتدائی تخمینے سے کسی حد تک زائد ہے۔