عامر صدیقی حضرت امام حسین علیہ السلام اور شہدائے کربلا سے محبت و عقیدت میں بنائے گئے چنیوٹ کے ماہر کاریگروں کے ہاتھوں لکڑی کے خوبصورت تعزیہ جات دنیا بھر میں اپنی مثال آپ ہیں، جن کی بناوٹ اور خوبصورت کا کوئی ثانی نہیں۔ لفظ 'تعزیہ' اعزا سے نکلا ہے۔ اعزا کے معنی صبر کی تلقین اور تعزیہ کا مطلب صبر کا مجسمہ ہے، چونکہ امام عالی مقام حضرت امام حسین علیہ السلام نے واقعہ کربلا میں صبر کی انتہا کی۔ چنیوٹ کے ماہر کاریگروں نے امام عالی مقام کو جنت میں ملنے والے محل کا خیالی ماڈل بنایا ہے۔ تعزیے کے پیڈسٹل یعنی تخت پر گلاب، سوسن اورانگوروں کی بیل کی منبت کاری کر کے کاریگروں نے شہدائے کربلا کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ تعزیہ کے تخت پر بنہ جات ڈیزائن کیے گئے ہیں اور ہر کونے پر بنہ میں 5 گنبد ڈیزائن کیے جاتے ہیں۔ یہ 5 گنبد پنجتن کو ظاہر کرتے ہیں۔ تعزیہ کی ہر منزل کو کاریگروں نے 2 حصوں میں ڈیزائن کیا ہے جو 6 آسمانوں کو تشبہہ دیتے ہیں۔ درمیان والا حصہ برآمدہ اور دائیں بائیں حصے متن کہلاتے ہیں۔ تعزیے کی ہرمنزل میں بالکونیاں، دروازہ جات اور کھڑکیوں کو بڑے خوبصورت انداز میں سجایا جاتا ہے۔ پالکی میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی رہائشگاہ دکھائی گئی ہے۔ پالکی کا پہلا گنبد سبز اور دوسرا سرخ رنگ کا ہوتا ہے۔ سبز حسنی جبکہ سرخ حسینی رنگ ہے۔ تعزیہ کا بالائی گنبد پالکی پر نصب کیا جاتا ہے۔ اسی طرح امام حسین علیہ السلام کی زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہے تعزیہ کے کاری کاریگر کہتے ہیں کہ ہمارے بزرگوں نے شہدائے کربلا سے محبت اور عقیدت میں دیار کی لکڑی پر منبت کر کے بارہ منازل پر مشتمل تعزیہ جات بنائے ہیں اور ان تعزیہ جات کو دیکھ کر واقعہ کربلا کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ ہر سال نویں اور دسویں محرم کو یہ تعزیہ جات نکالے جاتے ہیں۔ چنیوٹ کے شہریوں کا کہنا ہے کہ ہر سال نویں اور دسویں محرم الحرام کو چنیوٹ کے مختلف علاقوں سے یہ تعزیہ جات اپنے مقررہ راستوں سے نکالے جاتے ہیں اور ہم شہدائے کربلا کی یاد کو تازہ اور ان سے عقیدت کا اظہار کرنے کے لیے ان تعزیوں کو اٹھاتے ہیں اور میدان ترکھاناں میں عزاداری اور پرسہ دیا جاتا ہے۔ چنیوٹ کے ماہر کاریگروں کے ہاتھوں سے تراشیدہ یہ تعزیہ جات امام عالی مقام حضرت امام حسین علیہ السلام اور شہدائے کربلا سے محبت اور عقیدت کا منفرد انداز ہیں جو واقعہ کربلا کی یاد کو تازہ کرتے ہیں۔