نہرو ، ایڈوینا ماؤنٹ بیٹن عشقیہ خطوط سونیا گاندھی لے اڑیں، واپسی کا مطالبہ

نہرو ، ایڈوینا ماؤنٹ بیٹن عشقیہ خطوط سونیا گاندھی لے اڑیں، واپسی کا مطالبہ

  ویب ڈیسک :ایڈویناماؤنٹ بیٹن اور نہرو کے درمیان  عاشقانہ خط وکتابت کا ریکارڈ   سونیا گاندھی لے اڑیں۔۔ لائبریری رکن نے ریکارڈ واپس کرنے  کا مطالبہ کردیا ۔

 رپورٹ کے مطابق پرائم منسٹر میوزیم اینڈ لائبریری (پی ایم ایم ایل) سوسائٹی کے رکن رضوان قادری نے لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر اور کانگریس کے رکن پارلیمنٹ راہول گاندھی کو خط لکھ کر سابق وزیراعظم سے متعلق 51 دستاویزات واپس کرنے کی درخواست کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ  مجوزہ خطوط کو  جواہر لال نہرو کی تاریخ کا ایک اہم پہلو' قرار دیا گیا ہے اور مبینہ طور پر کانگریس کی سینئر رہنما سونیا گاندھی کے حکم پر اسے میوزیم سے واپس لے لیا گیا تھا۔

دارالحکومت کے تین مورتی کمپلیکس میں واقع نہرو میوزیم میموریل اور لائبریری پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی سرکاری رہائش گاہ تھی اور یہ ان کی یاد میں مرکزی وزارت ثقافت کے تحت ایک خود مختار ادارے کے طور پر قائم کیا گیا تھا۔

قادری نے کہا کہ اس سے قبل انہوں نے ستمبر میں سونیا گاندھی کو ایک خط لکھا تھا جس میں ان سے انسٹی ٹیوٹ کو دستاویزات واپس کرنے کی درخواست کی تھی۔ 

انہوں نے کہا کہ ستمبر 2024 کو میں نے سونیا گاندھی کو ایک خط لکھا تھا جس میں درخواست کی گئی تھی کہ تقریباً آٹھ مختلف جلدوں کے 51 بکس، جو پرائم منسٹر میوزیم (سابقہ ​​ نہرو میموریل) میں موجود نہرو کلیکشن کا حصہ تھے، انسٹی ٹیوٹ کو واپس کیا جائے، یا ہمارے ذریعہ اسکین کرنے کی اجازت دی جائے، یا ان کی اسکین شدہ کاپیاں فراہم کی جائیں۔ اس سے ہمیں ان کا مطالعہ کرنے اور مختلف اسکالرز کی تحقیق کرنے میں آسانی ہوگی۔

رضوان قادری نے مزید کہا کہ ان میں پنڈت جواہر لال نہرو اور لیڈی ماؤنٹ بیٹن کے درمیان اہم خط و کتابت کے علاوہ پنڈت گووند بلبھ پنت، جے پرکاش نارائن اور دیگر کے ساتھ خطوط کا تبادلہ بھی شامل ہے۔ 

یہ خطوط ہندوستانی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہیں اور ریکارڈ کے ذریعے یہ ثابت ہوا ہے کہ انہیں سونیا گاندھی کی ہدایت پر 2008 میں میوزیم سے واپس لے لیا گیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سونیا گاندھی کی طرف سے کوئی جواب نہ ملنے کے بعد انہوں نے اس سلسلے میں لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کو ایک اور خط لکھا ہے۔

قادری نے کہا کہ چونکہ ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا، میں نے اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی سے درخواست کی ہے کہ وہ ان مواد کو واپس لانے میں مدد کریں۔ میں نے ان پر بھی زور دیا ہے کہ وہ اس بات پر غور کریں کہ یہ دستاویزات ملک کے ورثے کا حصہ ہیں اور ملک کی تاریخ کا ایک اہم پہلو ہے۔

اس پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمنٹ سمبت پاترا نے کہا کہ یہ 'دلچسپ' ہے۔پی ایم ایم ایل کی حال ہی میں ختم ہونے والی سالانہ جنرل میٹنگ میں رضوان قادری، جو ایک ممبر ہیں، نے اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی کو ایک خط لکھا ہے جس میں ان کی والدہ سونیا گاندھی سے خط واپس لانے میں مدد مانگی گئی ہے۔

انہوں نے تجسس سے پوچھا کہ نہرو جی نے ایڈوینا ماؤنٹ بیٹن کو کیا لکھا ہوگا جسے سنسر کرنے کی ضرورت ہے اور کیا قائد حزب اختلاف راہول نہرو اور ایڈوینا کے درمیان خطوط کو بازیافت کرنے میں مدد کریں گے!

وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی اہلیہ ایڈوینا پر نہرو کا دل آ گیا تھا لیکن ایڈوینا سے پہلے وائسرائے ویویل کی اہلیہ لیڈی یوجین ویویل بھی نہرو کو دل و جان سے چاہتی تھیں۔ وہ چونکہ عمر میں نہرو سے بڑی تھیں اور شکل و صورت کے اعتبار سے بہت زیادہ خوبصورت نہیں تھیں، اس لیے ان کے بارے میں اتنی افواہیں نہیں پھیلیں۔
نہرو ویویل کے زمانے میں بھی گورنمنٹ ہاؤس میں سوئمنگ پول میں تیرنے کے لیے جاتے تھے لیکن تب اس بارے میں کوئی ذکر نہیں ہوا۔ لوگوں کی توجہ اس طرف تب مرکوز ہوئی جب ایڈوینا ماؤنٹ بیٹن بھی اس سوئمنگ پول میں نہرو کے ساتھ تیرتی ہوئی دیکھی گئیں۔
نہرو کے ساتھ ایڈوینا کی دوستی اس وقت پروان چڑھی جب ایڈوینا اور ان کا خاندان واپس انگلینڈ جانے کی تیاری کررہا تھا۔

ریکارڈ کے مطابق ایڈوینا نہرو کے نام ایک خط میں لکھتی ہیں: ’ہم نے جو کیا یا محسوس کیا، وہ کبھی بھی تم اور تمہارے کام، اور میرے اور میرے کام کے درمیان حائل نہیں ہو پائے گا۔ کیوں کہ اس سے ہر شے تباہ ہو جائے گی۔

ایڈوینا ماؤنٹ بیٹن کی سوانح عمری ’ ایڈوینا ماؤنٹ بیٹن اے لائف آف ہر اون‘ کی مصنفہ جینیٹ مورگن  کا کہنا ہے ’5 فروری 1960 کو انڈونیشیا کے شہر بورنیو میں ایڈوینا کا دورانِ نیند انتقال ہو گیا۔ سونے سے قبل وہ نہرو کے خطوط کو دوبارہ پڑھ رہی تھیں جو سوتے ہوئے ان کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر گئے تھے۔

جب کہ نہرو نے ایک خط میں ایڈوینا کو لکھا: ’اچانک مجھے احساس ہوا (اور شاید تمہیں بھی ہوا ہو) کہ ہمارے درمیان ایک گہری وابستگی موجود ہے، ایک ایسی طاقت جو قابو سے باہر ہے جو ہمیں ایک دوسرے کی طرف کھینچ رہی ہے۔ مجھے اس طاقت کا ہلکا سا احساس تھا اور اس نے مجھے پوری طرح بےبس کر دیا اور ساتھ ہی ساتھ اس نئی دریافت نے مجھے سرشار بھی کر دیا۔ ہم زیادہ قریب آ کر گفتگو کرنے لگے جیسے ہمارے درمیان سے کوئی پردہ اٹھ گیا ہو اور ہم خوف یا خجالت کے بغیر ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانک سکتے تھے۔‘

 ماؤنٹ بیٹن کی بیٹی پامیلا کا اصرار ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے عشق میں بری طرح گرفتار تو ضرور تھے، اور دونوں کے درمیان 1960، یعنی ایڈوینا کی موت تک خطوط کا تبادلہ بھی ہوتا رہا، لیکن بات اس سے آگے نہیں بڑھی۔

نہرو رنڈوے ہونے کی وجہ سے خود کو بےحد تنہا محسوس کرتے تھے، جب کہ ایڈوینا بھی اپنے خاوند کے رنگا رنگ افیئرز اور مصروفیات کی وجہ سے ایک اجنبی ملک میں اداسی کا شکار تھیں، اس لیے دونوں ایک دوسرے کی طرف مقناطیس کی طرح کھنچے چلے آئے۔

 یادرہے ملک کی تقسیم جلد بازی میں کرنے کے عاجلانہ اقدام سے ایک کروڑ ہندوستانیوں کی جانیں گئیں۔

ملک تقسیم کرنے کی تاریخ دس ماہ آگے کرنے کے فیصلے کے پیچھے ماؤنٹ بیٹن کی اہلیہ ایڈوینا ماؤنٹ بیٹن کا نہرو سے سکینڈل تھا اور وہ جلد از جلد یہ کام نمٹا کر واپس انگلستان لوٹنا چاہتے تھے۔ 

صل منصوبے کے مطابق 1948 کے وسط میں جا کر تھوڑی زیادہ منصوبہ بندی اور ٹھنڈے دل و دماغ سے ہندوستان کو آزاد کرتے تو شاید اتنی تباہی نہ مچتی۔

Watch Live Public News