نیب ترامیم کیس میں جسٹس حسن اظہر رضوی کا اضافی نوٹ

نیب ترامیم کیس میں جسٹس حسن اظہر رضوی کا اضافی نوٹ
کیپشن: نیب ترامیم کیس میں جسٹس حسن اظہر رضوی کا اضافی نوٹ

ویب ڈیسک: جسٹس حسن اظہر رضوی نے اضافی نوٹ میں کہا کہ پارلیمان قانون سازی کے ذریعے کسی عدالتی فیصلے کو ختم یا غیر موثر نہیں کر سکتا، پارلیمنٹ عدالتی آبزرویشنز کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون سازی کر سکتی ہے۔

نیب ترامیم کیس میں جسٹس حسن اظہر رضوی نے اضافی نوٹ میں کہا کہ نیب ترامیم کے پہلے فیصلے میں ارکان پارلیمنٹ کو سروس آف پاکستان کا حصہ قرار دیا گیا، ارکان اسمبلی نہ سرکاری ملازم ہیں نہ ہی سروس رولز کے تحت قانون سازی کرتے، فیصلے میں نیب مقدمات کی حد 50 کروڑ کرنے کو بھی کالعدم کیا گیا۔

اضافی نوٹ میں کہا گیا کہ نیب بنانے کا مقصد ہی میگا کرپشن کی روک تھام ہے، میگا کرپشن کی روک تھام کیلئے دائرہ اختیار کی حد 50 کروڑ کرنا غیرقانونی نہیں، عدالت پارلیمان کی جانب سے کی گئی قانون سازی کو کالعدم دو صورتوں میں قرار دے سکتی ہے، قانون سازی بنیادی یا آئین کیخلاف ہو تو کالعدم ہوسکتی ہے۔

نوٹ میں مزید کہا گیا کہ عدالتوں کو قوانین کالعدم قرار دینے سے ہر ممکن حد تک اجتناب کرنا چاہیے، پارلیمان کو اختیار ہے کہ ماضی سے بھی قوانین لاگو کر سکے، ماضی سے کسی قانون کا اطلاق عدالتی اختیارات پر قدغن لگانا نہیں ہوتا، پارلیمان قانون سازی کے ذریعے کسی عدالتی فیصلے کو ختم یا غیرموثر نہیں کر سکتا۔

اضافی نوٹ میں کہا گیا کہ پارلیمنٹ عدالتی آبزرویشنز کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون سازی کر سکتی ہے، عدالتیں پارلیمان کو قانون سازی کی ہدایت نہیں کر سکتی، اکثریتی فیصلے میں چیف جسٹس نے قرار دیا کہ نیب ترامیم کیس پانچ رکنی بنچ کو سننا چاہیے تھا، چیف جسٹس شاید بھول گئے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کے حکم امتناع کی توثیق پر انہوں نے خود دستخط کیے ہیں۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ چیف جسٹس نے شاید اپیل سنتے ہوئے خود کو قانون اور دیگر ججز سے بالاتر سمجھ لیا تھا، آرٹیکل 184/3 کے مقدمات کی سپریم کورٹ ججز معمول کے مطابق سماعت کرتے ہیں، کچھ ججز اصل درخواست اور کچھ اس کے خلاف اپیلیں سنتے ہیں، ایک جج اگر دوسرے کیخلاف غیرمناسب ریمارکس دے تو ممکن ہے اسے کسی دوسرے کیس میں جواب بھی ملے، ججز کے ایک دوسرے کیخلاف ریمارکس عوام اور بین الاقوامی سطح پر عدلیہ کی بدنامی کا باعث بنیں گے۔

Watch Live Public News