ویب ڈیسک : سری لنکا کے نومنتخب صدر انورا کمارا دیسا نائیکے نے قرض میں جکڑے ہوئے ملک میں جلد عام انتخابات کی راہ ہموار کرنےکے لیے پارلیمنٹ کو تحلیل کر دیا ہے۔ انہوں نے یہ اعلان منگل کو ایک سرکاری گزٹ نوٹیفکیشن میں کیا۔
نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ پارلیمانی انتخابات 14 نومبر کو ہوں گے، اس میں مزید کہا گیا ہے کہ اگلی پارلیمنٹ کا اجلاس 21 نومبر کو ہوگا۔
سری لنکا میں آخری عام انتخابات اگست 2020 میں ہوئے تھے۔ اس ملک میں قانون ساز پانچ سال کی مدت کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔
سری لنکا کے عوام نے اختتام ہفتہ ہونے والے ایک صدارتی الیکشن میں مارکسسٹ جھکاؤ رکھنے والے سیاست دان دیسانائیکے کو اپنے ملک میں اصلاحات کے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں ایک اہم کردار دیا تھا جو ایک شدید مالی بحران سے آہستہ آہستہ باہر نکل رہا ہے۔
لیکن ان کی اتحادی جماعت ،نیشنل پیپلز پارٹی کے پاس موجودہ پارلیمنٹ میں 225 میں سے صرف تین نشستیں ہیں، جس کی وجہ سے وہ اپنی پالیسیوں کے لیے نیا مینڈیٹ حاصل کرنے کے لیے پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے پر آمادہ ہوئے ہیں۔
55 سالہ دیسانائیکے نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے دو ارب 90 کروڑ ڈالر کے پیکیج کی شرائط پر از سرِ نو بات چیت کا عندیہ بھی دیا ہے۔
تاہم انہوں نے آئی ایم پروگرام سے متعلق مفاہمانہ لہجہ اختیار کیا تھا اور واضح کیا تھا کہ ٹیکس کٹوتیوں سمیت دیگر اقدامات آئی ایم ایف کے ساتھ مشاورت کے بعد ہی کیے جائیں گے۔
اپنی انتخابی مہم کے دوران دیسا نائیکے نے اعلان کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آئے تو اپنی پالیسیوں کے مطابق قانون سازی اور اقدامات کے لیے سری لنکا کی موجودہ پارلیمنٹ کو تحلیل کرکے 45 دن کے اندر عام انتخابات منعقد کرائیں گے۔
سری لنکا کے صدارتی الیکشن میں دوسری بار گنتی کے بعد مارکسسٹ رجحان رکھنے والے امیدوار انورا کمارا دیسانائیکے کامیاب قرار پائے کیوںکہ پہلی بار گنتی میں کوئی بھی امیدوار صدارت کے لیے مطلوب 50 فی صد ووٹ حاصل نہیں کر سکا تھا۔
نو منتخب صدر انورا کمار دیسا نائیکے کون ہیں ؟
صدر منتخب ہونے والے 55 سالہ دیسانائیکے بائیں بازو کے سیاست دان ہیں۔
نومنتخب صدر دیسانائیکے نے صدارتی الیکشن میں موجودہ صدر رانیل وکرما سنگھے اور اپوزیشن رہنما سجیت پریماداسا کو شکست دی ہے۔
سجیت پریماداسا پہلی گنتی میں 32 فی صد سے زائد ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے تھے جب کہ صدر وکرما سنگھے پہلے ہی مرحلے میں صدارتی دوڑ سے باہر ہوگئے تھے۔
واضح رہے کہ سری لنکا کے صدارتی انتخابات میں مجموعی طور پر 38 امیدوار میدان میں تھے۔
سری لنکا میں 2022 کے معاشی بحران کے باعث اٹھنے والی احتجاجی لہر میں راجہ پاکسے کی حکومت ختم ہونے کے بعد اقتدار سنبھالنے والے رانیل وکرم سنگھے صرف 17 فی صد ووٹ حاصل کر سکے۔
اپوزیشن لیڈر سجیت پریماداسا ووٹوں کی گنتی میں دوسرے نمبر پر رہے۔
مبصرین صدارتی الیکشن کے نتائج کو صدر وکرما سنگھے کے اقدامات سے متعلق ریفرینڈم بھی قرار دے رہے ہیں۔
سری لنکا میں دو سال قبل آنے والے دہائیوں کے بدترین معاشی بحران کے بعد ہفتے کو پہلے صدارتی الیکشن کے لیے ووٹنگ ہوئی تھی۔صدارتی الیکشن کے لیے دو کروڑ 20 لاکھ آبادی میں سے ایک کروڑ 70 لاکھ سے زائد شہری ووٹ دینے کے اہل تھے۔