ویب ڈیسک: عدالت کے حکم پر جامعہ مسجد سنبھل کے سروے کے دوران مشتعل ہجوم اور پولیس کے درمیان ہونے والے تصادم میں اب تک کم از کم چار افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ 20 سے زیادہ پولیس اہلکار زخمی ہیں۔
پولیس انتظامیہ کا کہنا ہے کہ تشدد کے واقعے میں چار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں کے نام بلال، نعیم، کیف اور ایان بتائے ہیں۔
یہ ہنگامے پولیس اور مظاہرین کے درمیان اس وقت شروع ہوئے جب مغل دور کی جامع مسجد کا سروے کیا جا رہا تھا۔
حکام نے ان ہنگاموں سے تعلق کی بنیاد پر 21 افراد کو حراست میں لیا ہے جبکہ شہر میں انٹرنیٹ سروس بند کر دی گئی ہے اور علاقے کے سکولوں کو ایک روز کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے وکیل وشنو شنکر جین اور کلکی دیوی مندر سنبھل کے مہنت رشی راج گری سمیت آٹھ افراد نے 19 نومبر کو سول جج آدتیہ سنگھ کی عدالت میں ایک درخواست دائر کر کے جامع مسجد کے مندر ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔
سول جج نے تین گھنٹے کی سماعت کے بعد ایڈووکیٹ کمشنر مقرر کر کے مسجد کے سروے کا حکم دیا اور 29 نومبر کو رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی۔ سہ پہر ساڑھے تین بجے حکم دیا گیا اور کمشنر نے اسی روز شام میں سات بجے جا کر سروے کیا۔
حزبِ اختلاف کے متعدد رہنماؤں نے مبینہ عجلت پر سوال اٹھایا ہے۔ سینئر کانگریس رہنما راہل گاندھی نے پیر کو ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ فریقین کا مؤقف سنے بغیر غیر حساسیت سے کی گئی کارروائی نے ماحول کو خراب کیا۔ انھوں نے ہلاکتوں کے لیے حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا اور متاثرین کے اہلِ خانہ سے تعزیت کی۔
بی جے پی نے الزام عائد کیا ہے کہ اپوزیشن پارلیمانی انتخابات میں شکست کے بعد سے ہی ماحول کو خراب کرانے کی کوشش کر رہی ہے۔ جو لوگ عدالتی حکم سے متفق نہیں ہیں وہ عدالت کا رخ کر سکتے ہیں۔
ہندو فریق کا دعویٰ
درخواست گزاروں کا دعویٰ ہے کہ اس مقام پر بھگوان کلکی کا مندر تھا جسے مغل حکمران بابر نے 1526 میں منہدم کر دیا اور ان کے سپہ سالار ہندو بیگ نے 1528-1527 میں وہاں مسجد کی تعمیر کی۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اسی مقام پر بھگوان کلکی کا اوتار ہو گا۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہندوؤں کی مذہبی کتابوں کے مطابق وہاں قدیم زمانے میں بھگوان وشنو اور بھگوان شیو کی ایک نشانی ملی تھی جس کی وجہ سے اسے ہری ہر مندر کہا جاتا ہے۔ اس مندر کی تعمیر کائنات کے آغاز پر بھگوان وشو کرما نے کی تھی۔
ان کا یہ بھی استدلال ہے کہ قدیم آثار کے تحفظ کے قانون 1904 کے تحت اس مسجد کو 22 دسمبر 1920 کو محفوظ یادگار کے طور پر نوٹی فائی کیا گیا تھا۔ محکمہ آثارِ قدیمہ کی محفوظ یادگاروں کی فہرست میں اسے قومی اہمیت کی حامل عمارت قرار دیا گیا ہے۔
لیکن محکمہ آثار قدیمہ اس پر اپنا کنٹرول رکھنے میں ناکام ہے اور مسجد کمیٹی نے اس پر قبضہ کر رکھا ہے۔ محفوظ یادگار کے قانون کے تحت اس میں ہر شخص کو داخل ہونے کا حق ہے۔ تمام لوگوں کو مسجد کے اندر جانے کی اجازت دی جائے اور مسلمانوں کو لوگوں کے داخل ہونے سے روکنے کو منع کیا جائے۔
مقامی مسلمان ہندوؤں کے دعوے کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کرتے ہیں۔ وہ مسجد کے اندر نصب ایک کتبے کی نشان دہی کرتے ہیں جس کے مطابق مسجد کو بابر کے زمانے میں تعمیر کیا گیا تھا اور اس پر سن 933 درج ہے جو کہ انگریزی سنہ کے حساب سے 1526 ہوتا ہے۔
لیکن عرضی گزار گزٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ کتبہ فرضی ہے اور اس کی دوسری جانب سنسکرت زبان میں اس کے مندر ہونے کے بارے میں لکھا ہے۔
عدالت میں مسجد کی نمائندگی کرنے والے ایڈووکیٹ ظفر علی کا کہنا ہے کہ 19 نومبر کو دو گھنٹے میں سروے مکمل ہو گیا تھا۔ کوئی بھی قابل اعتراض چیز نہیں پائی گئی۔ کوئی ایسی چیز ملی ہی نہیں جس سے کوئی شک بھی پیدا ہو۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ شاہی جامع مسجد واقعی ایک مسجد ہے مندر نہیں۔
مسلم وکلا کے مطابق عدالت نے انھیں اپنا مؤقف رکھنے کا موقع دیے بغیر سروے کا حکم دے دیا۔ اس نے کسی بھی ناخوش گوار واقعے کو روکنے کے لیے امن کمیٹی کی میٹنگز کے انعقاد کا بھی موقع نہیں دیا۔
ان کے مطابق مسجد کی چار دیواری اور مقفل اسٹور روم کو کھلوا کر اس کا بھی سروے کیا گیا۔ مسجد کے ذمہ داروں نے سروے کمشنر کے ساتھ مکمل تعاون کیا۔
سنبھل کے رکن پارلیمان ضیاء الرحمن برق نے سروے کو عجلت میں اٹھایا گیا قدم قرار دیا۔ ان کے مطابق عدالت نے ہمیں جواب داخل کرنے کا موقع نہیں دیا۔
ان کے مطابق باہری لوگوں نے شہر کا ماحول خراب کرنے کے مقصد سے عدالت میں درخواست داخل کی ہے۔ انھوں نے 1991 کے عبادت گاہ بل کا بھی حوالہ دیا جس میں کہا گیا ہے کہ 1947 میں جو عبادت گاہ جس شکل میں تھی اسی شکل میں رہے گی۔
ان کے بقول سنبھل کی جامع مسجد میں مسلمان کئی صدی سے نماز ادا کر رہے ہیں۔ اگر مقامی عدالت ہماری اپیل پر کوئی اطمینان بخش فیصلہ نہیں دیتی ہے تو ہمیں ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا حق ہے۔