ویب ڈیسک: یوپی کے شہرسنبھل میں ہندو مسلم فسادات، جامع مسجد کے دورے کے موقع پر ہنگامہ آرائی ، سرکاری وفد پر پتھراؤ، پولیس کی فائرنگ سے 3 شہری ہلاک،سڑکوں پر گاڑیاں جلا دی گئیں، علاقے میں کئی مکانات کو بھی نقصان پہنچا۔
رپورٹ کے مطابق زخمی پولیس اہلکاروں کا علاج بھی جاری ہے۔ایس پی سنبھل نے دو لوگوں کی موت کی تصدیق کی ہے۔ تاہم ابھی تک نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔ پولیس نے واضح طور پر موت کی وجہ نہیں بتائی۔ گولی لگنے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ موت کیسے ہوئی پوسٹ مارٹم سے واضح ہو گا۔
سنبھل میں جامع مسجد کے سروے کو لے کر ہنگامہ آرائی کے بعد مراد آباد ڈویژن کے تمام اضلاع کی پولیس نے سنبھل میں ڈیرے ڈالے ہیں۔ امروہہ، مرادآباد اور رام پور اضلاع کی پولیس فورس نے کشیدہ علاقے میں ڈیرے ڈالے ہیں۔ پولیس اس وقت فلیگ مارچ کر رہی ہے۔
آل انڈیا مسلم جماعت کے قومی صدر مولانا شہاب الدین رضوی بریلوی نے سنبھل کے لوگوں سے امن اور ہم آہنگی برقرار رکھنے کی اپیل کی ہے۔ توڑ پھوڑ اور پتھراؤ میں ملوث نہ ہوں۔ مولانا نے کہا ہے کہ پیغمبر اسلام نے امن کا پیغام دیا ہے۔ اس پر عمل کریں۔ سنبھل کی جامع مسجد ایک تاریخی مسجد ہے۔ اس کے لیے قانونی جنگ بھرپور طریقے سے لڑی جائے گی۔
سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو کا بیان بھی سامنے آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے جان بوجھ کر تشدد کو ہوا دی ہے۔ انہوں نے یوگی حکومت پر سخت نشانہ لگایا۔ ساتھ ہی ہندو فریق کے وکیل نے دھمکی بھی دی ہے۔ ایڈوکیٹ وشنو شنکر جین نے اپنے ایکس ہینڈل پر لکھا کہ اے ایس آئی کو فوری طور پر متنازع مسجد کا کنٹرول سنبھال لینا چاہیے۔
سنبھل کی شاہی جامع مسجد کو لے کر عدالت میں کیس چل رہا ہے۔ جس میں ہندو فریق کا دعویٰ ہے کہ یہ ہری ہر مندر ہے۔ جسے گرا کر مسجد بنائی گئی۔ کیس کی سماعت میں عدالت کے حکم کے بعد اتوار کی صبح 7.30 بجے سے سروے کیا جا رہا تھا۔ عدالت کے حکم پر ایڈووکیٹ کمشنر سروے کے لیے پہنچے تھے۔ اسی دوران شاہی جامع مسجد کے باہر بھیڑ جمع ہونا شروع ہو گئی اور سروے کے حوالے سے ہنگامہ شروع ہو گیا۔