لانگ مارچ کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے مطالبات سامنے آ گئے

لانگ مارچ کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے مطالبات سامنے آ گئے
کراچی ( پبلک نیوز) پیپلز پارٹی نے حکومت کے سامنے چھتیس مطالبات رکھ دیئے۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ان اصولوں اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اصولوں کی روشنی میں ہمارے مطالبات۔ 1۔ حکومت کی ہر سطح پر ایماندارانہ اور آزادانہ انتخابات. 2 ۔ 1973 کے آئین کے مطابق حکومت کا نظم و نسق. 3 ۔ 1973 کے اۤئین میں دئے گئے مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے جدا جدا اختیارات کے اصولوں کی پاسداری. 4۔ تمام اداروں کے اپنی اپنی آ ئینی حدود میں رہتے ہوئے کارکردگی اور اختیارات. 5 ۔ پارلیمنٹ اور کمیٹی سسٹم کا استحکام اور پائیداری. 6۔ اعلی عد لیہ کے ججوں کی تقرری کے سلسلے میں پارلیمانی کمیٹی کے 1973 کے آئین میں دئے گئے کردار کا ازسر نو تعین. 7۔ آزاد الیکشن کمیشن اف پاکستان . 8 ۔ قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا. 9 ۔ ایک آزاد اور قابل احتساب عد لیہ . 10 ۔ تمام مزدوروں کا بشمول ان فارمل معیشت کے مزدور، کنٹریکٹ لیبر ، اپنے گھروں سےکام کرنے والے مزدور، گھریلو ملازمین ، موسم کے اعتبار سے کام کرنے والوں ، کھیت مزدوروں ، مویشی بانی میں کام کرنے والوں ، جنگلات کے شعبے کے کارکنوں ، ماہی گیری کے مزدور ، جہاز سازی ، کان کنی ، تعمیراتی شعبے ، مالیاتی شعبے ، ٹرانسپورٹ ، تجارت اور خدمات کے شعبوں کے مزدوروں کو یونین سازی کا حق دینا ۔ فی الوقت صرف صوبہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے گھر سے کام کرنے والے مزدوروں کو یونین سازی کا حق دیا ہے ۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ پاکستان کے تمام مزدوروں کو یونین سازی کا حق حاصل ہونا چاہئیے . 11 ۔ طلبا کے لئے یونین سازی کا حق اور طالبعلموں کی فلاح و بہبود کےامور میں ان کا فیصلہ ساز کردار. 12 ۔ ازادی اظہار کے حق کو یقینی بنانا. 13 ۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں باضابطہ اور غیر اعلانیہ دونوں قسم کی سنسر شپ کا خاتمہ۔ 14 ۔ میڈیا کمیشن کی رپورٹ کی سفارشات کے مطابق پیمرا کی آزادی کے لئے نئی قانون سازی۔ 15 ۔ سائبر کرائم قانون کی تمام غیر منصفانہ اور جابرانہ دفعات کا خاتمہ۔ 16 ۔ تمام پبلک اداروں میں ڈیٹا کے تحفظ کے لئے نئی قانون سازی۔ 17 ۔ تمام ضرورت مند مردوں اور خواتین کے لئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی توسیع اور اصلاح۔ 18 ۔ ایک مساوات کمیشن کا قیام جو صوبوں کی مشاورت سے تمام خواتین اور اقلیتوں کے لئے منصفانہ اجرت اور روزگار پالیسی مرتب کرے گا۔ 19 ۔ خواتین کے خلاف تشدد، گھریلو تشدد، تیزاب کے حملوں اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کے قوانین پر لازمی عملدر آمد کو یقینی بنانا۔ 20 ۔ تمام پبلک مقامات ، پبلک ٹرانسپورٹ اور پبلک سہولیات میں خواتین، بچوں اور خصوصی اہلیتوں کے افراد کا با سہولت داخلہ یقینی بنانا۔ 21 ۔ 16 سال کی عمر تک بچوں کی آئین میں دی گئی شق کے مطابق لازمی تعلیم کو ایک مقررہ مدت کے اندر اندر یقینی بنانا۔ 22 ۔ قابل استطاعت صحت اور علاج معالجے کے حقوق کی فراہمی کو بشمول مفت تشخیص ، آوٹ پیشنٹ کئیر ، دوائیاں ، اسپاتوں میں داخلے کی سہولت کو سرکاری اور منظور شدہ نجی شعبے کے اسپتالوں کے نیٹ ورک کے ذریعے یقینی بنانا ۔ 23 ۔ ان خواتین کے لئے جنہیں زچہ اور بچہ کے سلسلے کی مفت خدمات اور نقد معاوضے کی ضرورت ہے ایک مقررہ مدت کے اندر اندر ان حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانا ۔ 24 ۔ اقلیتوں کی جبری تبدیلی مذہب کی روک تھام کے لئے موثر قانون سازی اور اس پر عملدرآمد۔ 25 ۔ صوبائی خودمختاری اور آئین کی اٹھارویں ترمیم اور آئین کی دیگر شقوں کے تحت دئے گئے صوبائی حقوق مثلا نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کے مقررہ مدت پر اجرا کی گارنٹی۔ 25 ۔ بلوچستان کے عوام کے پاکستان کے آئین کے تحت دئے گئے حقوق کی یقینی فراہمی اور ان کے فیصلہ سازی کی آزادی کو یقینی بنانے کے لئے قومی اتفاق رائے پیدا کرنا۔ 27 ۔ ایسے افراد کے سوا جن پر خطرناک نوعیت کے الزامات ہیں تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کو یقینی بنانا اور سیاسی گفت و شنید کے ذریعے بلوچ سیاسی رہنماوں کو ملک میں واپس لانے اور ان کو مرکزی سیاسی دھارے میں شامل کرنے پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنا۔ 28 ۔ آئین کے آرٹیکل 158 کے تحت تیل اور گیس پیدا کرنے والے صوبوں کو ان کی تیل اور گیس کی پیداوارپر اپنی ضروریات پوری کرنے کے ترجیحی حقوق کو موثر بنانا۔ 29 ۔ پر تشدد انتہا پسندی کی بیخ کنی کے لئے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کو یقینی بنانا۔ 30 ۔ جنوبی پنجاب کے عوام کی شناخت اور ان کی خواہشات کے مطابق جنوبی پنجاب کے نئے صوبے کا قیام اور اس علاقے کو نظر انداز کئے جانے اور اس کی پسماندگی کا خاتمہ۔ 31 ۔ گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے علاقہ جات کی مالیاتی خودمختاری اور ان کو ان کے ریونیو اور مرکز سے تفویض کردہ مالی وسائل پر مکمل اختیار دینا۔ 32 ۔ مزدوروں کے لئے قابل گزارہ اجرت کی ادائیگی کا حق ۔ ملک بھر میں موجودہ کم سے کم اجرت میں اتنا اضافہ جس میں وہ عزت کے ساتھ رہ سکیں اوراپنے اور اپنے افراد خاندان کے لئے معقول معیار زند گی کو ممکن بنا سکیں۔ 33 ۔ تمام مزدوروں بشمول ان مزدورں کے جو معیشت کے ان فارمل شعبوں ، کنٹریکٹ لیبر ، اپنے گھر سے کام ، گھریلو ملازمین اور موسمی مزدورہیں سوشل سیکیورٹی کا تحفظ فراہم کرنا۔ 34 ۔ زرعی شعبے کے مزدوروں اور چھوٹے کسانوں پر لیبر قوانین ، کم سے کم اجرت کے قانون ، سوشل سیکیورٹی اور زیادہ سے زیادہ کام کے اوقات کے قوانین کا اطلاق۔ 35 ۔ اس وقت سندھ واحد صوبہ ہے جس میں خواتین کھیت مزدوروں کو رجسٹر کرنے اور اان کو قانونی تحفظ اور حقوق فراہم کرنے کے لئے قانون پاس کیا گیا ہے ۔ ان قوانین کو تمام ملک میں لاگو کرنا۔ 36 ۔ زرعی اجناس کی قیمتوں اور ان پر سبسڈی کے لئے ایک نیا فریم ورک تشکیل دینا جس سے قومی پیمانے پر غذائی تحفظ کے حق کی پاسداری ، مستحکم نرخوں اور شہری اور دیہی عوام کی یکساں آمدنی کو یقینی بنایا جائے۔ 37 ۔ غریب طبقات کے لئے رہائش کی فراہمی کے حق اور ان کو جبری طور پر گھر سے بے دخل کرنے کے خلاف قانون سازی۔ 38 ۔ کچی آبادیوں اور انتہائی پسماندہ علاقوں کو ریگولرائز کرنے اور ان کو بنیادی شہری سہولتیں فراہم کرنے کے لئے قانونی فریم ورک کی تیاری۔

شازیہ بشیر نےلاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی سے ایم فل کی ڈگری کر رکھی ہے۔ پبلک نیوز کا حصہ بننے سے قبل 42 نیوز اور سٹی42 میں بطور کانٹینٹ رائٹر کام کر چکی ہیں۔