ویب ڈیسک: افغان طالبان اقتدار میں آنے کے بعد مسلسل بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہے ہیں۔ طالبان حکومت افغانستان میں اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے مذہب کا استعمال کر رہی ہے۔
آج کے افغانستان میں خوف اور غیر یقینی صورتحال ہے، جہاں نا تو کوئی صحافی محفوظ ہے اور نہ ہی حقائق کو سامنے لانے والا کوئی نشریاتی ٹی وی۔
حال ہی میں ایک رپورٹ منظرِ عام پر آئی ہے کہ " افغان طالبان کابل میں مقیم رہائشیوں کو لندن سے نشر ہونے والے مقبول چینل 'افغانستان انٹرنیشنل' کی نشریات دیکھنے سے روکنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں"۔
صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کا کہنا ہے کہ "طالبان کے اقتدار میں رہتے ہوئےصحافی برادری شدید خطرے میں ہے"۔ 'افغانستان انٹرنیشنل' جیسے حقائق پر مبنی خبریں دینے والے چینل نشریات میں خلل پیدا کرنا نہایت ہی شرمناک عمل ہے۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے مطابق 5 ستمبر کے بعد طالبان نے افغانستان میں زمینی اسٹیشن کے ذریعے 'افغانستان انٹرنیشنل' چینل کے سگنل کو بند کردیا۔ کوئی بھی آزاد میڈیا کا ادارہ جو درست معلومات فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے، اسے طالبان کی جانب سے دھمکیوں کا سامنا ہے۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کا کہنا ہے کہ 4 ستمبر کو طالبان کے نائب وزیر خارجہ عباس ستانکزئی نے افغانستان انٹرنیشنل چینل کو ایک "دشمن" قرار دیا کیونکہ اس نے سیلاب زدہ شمالی صوبہ بغلان میں بھیجی گئی امداد کا مبینہ طور پر غلط استعمال کو رپورٹ کیا تھا۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی رپورٹ کے مطابق اس سے قبل مئی میں، طالبان نے صحافیوں اور شہریوں کو حکم دیا تھا کہ وہ افغانستان انٹرنیشنل کا بائیکاٹ کریں۔ طالبان ہر اُس زبان کو بند کرنا چاہتے ہیں جو اُن کا اصل چہرہ افغان عوام اور بین الاقوامی دنیا کے سامنے لانا چاہتی ہے ۔
آخر کب تک طالبان اپنے شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق غصب کرتے رہیں گے ؟