حسن نصراللہ اسرائیلی حملے میں شہید، حزب اللہ نے تصدیق کردی

حسن نصراللہ اسرائیلی حملے میں شہید، حزب اللہ نے تصدیق کردی
کیپشن: حزب اللہ سربراہ حسن نصراللہ حملے میں شہید ہوگئے، اسرائیلی فوج کا دعویٰ

ویب ڈیسک:حسن نصراللہ اسرائیلی میزائل حملے میں شہید ہوگئے ہیں۔ بہت سے قیاس آرائیوں کے بعد آخر کار اب حزب اللہ نے شہادت کی تصدیق کردی ہے۔ اس سے قبل اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا تھا کہ حزب اللہ سربراہ حسن نصراللہ حملے میں شہید ہوگئےہیں۔

آئی ڈی ایف کے ایکس اکاؤنٹ پر شیئر کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’حسن نصراللہ اب دنیا کو دہشت زدہ نہیں کر سکیں گے۔‘

یہ بیان بیروت میں رات گئے ہونے والے حملوں کے سلسلے کے بعد جاری کیا گیا ہے جن کے بارے میں اسرائیل کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں نصراللہ اور حزب اللہ کے دیگر کمانڈروں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

اسرائیلی فوج آئی ڈی ایف  کی طرف سے جاری کئے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ فضائی حملوں میں بیروت کے قریب واقع حزب اللہ کے ہیڈکوارٹر کو  نشانہ بنایا گیا تھا  جہاں ایک  رہائشی عمارت کی بیسمنٹ میں حسن نصر اللہ رہائش پذیر تھے ۔ آئی ڈی ایف نے مزید دعوی کیا ہے کہ حملے میں حزب اللہ کے جنوبی فرنٹ کے کمانڈر علی کراکی بھی شہید ہوچکے ہیں۔

وائس آف امریکا کے مطابق  اسرائیل نے گزشتہ ہفتے حزب اللہ کی اعلیٰ قیادت کو ختم کرنے کا ارادہ کیا تھا ۔  گذشتہ روز کئے جانیوالے حملے کی اہمیت  کی اہمیت اس سے بھی واضح ہوتی ہے کہ اسرائیلی وزیردفاع یو گیلنٹ کے دفتر  کی طرف سے جاریکردہ بیان میں کہا گیا ہے  کہ وہ اسرائیل کی فضائیہ کے سربراہ اور دیگر اعلیٰ کمانڈروں کے ساتھ ملٹری ہیڈ کوارٹرز میں موجود تھے۔

جمعہ کو ہونے والے بم دھماکے پچھلے سال لبنان کے دارالحکومت میں اب تک دیکھے گئے حملوں میں سب سے زیادہ طاقتور تھے۔

ایرانی پاسداران کے رہنما بھی شہید 

ذرائع کا کہنا ہے کہ ایرانی پاسداران انقلاب کی القدس فورس کے کمانڈر اسماعیل قاآنی، نائب کمانڈر آپریشنز عباس نیلفروشان بھی حسن نصر اللہ کے ساتھ شہید ہونے والوں میں شامل ہیں۔

اسرائیل ڈیفنس فورسز کے چیف آف سٹاف نے ویڈیو پیغام جاری کر دیا

اسرائیلی کمانڈر لیفٹننٹ جنرل ہرزی ہلاوی نے اپنے پیغام میں کہا کہ اسرائیلی شہریوں کو دھمکانے والوں کو کسی بھی جگہ سے پکڑنا جانتے ہیں۔ یہ پیغام سب کے لیے بہت واضح ہے۔ 

اسرائیلی فوج کے ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیل ہگاری نے کہا کہ حملوں میں حزب اللہ کے مرکزی ہیڈکوارٹر کو نشانہ بنایا گیا جو رہائشی عمارتوں کے نیچے زیر زمین واقع ہے۔

حزب اللہ کے المنار ٹی وی نے رپورٹ کیا کہ دحیہ کے حریت حریک محلے میں چار عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں۔ دھماکے سے کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے اور بیروت کے شمال میں تقریباً 30 کلومیٹر دور تک مکانات لرز گئے۔ سائرن بجاتی ہوئی ایمبولینسوں کو جائے وقوعہ کی طرف جاتے دیکھا گیا۔

حسن نصر اللہ کون تھے ؟
حسن نصر اللہ کی پیدائش کے کچھ ہی عرصے بعد لبنان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔
وہ بیروت کے مشرق میں ایک غریب محلے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ایک چھوٹی سی دکان کے مالک تھے اور حسن ان کے نو بچوں میں سب سے بڑے تھے۔


جب لبنان میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو ان کی عمر پانچ سال تھی۔ یہ ایک تباہ کن جنگ تھی جس نے بحیرہ روم کے اس چھوٹے سے ملک کو 15 سال تک اپنی لپیٹ میں رکھا اور اس دوران لبنانی شہری مذہب اور نسل کی بنیاد پر ایک دوسرے سے لڑے۔
اس دوران مسیحی اور سنی ملیشیا گروپوں پر الزام لگا کہ وہ بیرونی ممالک کی مدد حاصل کرتے ہیں۔
جنگ کے آغاز کی وجہ سے حسن نصراللہ کے والد نے بیروت چھوڑنے اور جنوبی لبنان میں اپنے آبائی گاؤں واپس جانے کا فیصلہ کیا جہاں شیعہ اکثریت تھی۔
حسن نصر اللہ 15 سال کی عمر میں اس وقت کے سب سے اہم لبنانی شیعہ سیاسی عسکری گروپ کے رکن بن گئے جس کا نام امل موومنٹ تھا۔ یہ ایک بااثر اور فعال گروپ تھا جس کی بنیاد ایرانی موسی صدر نے رکھی تھی۔


اس دوران نصراللہ نے اپنی مذہبی تعلیم بھی شروع کی۔ نصراللہ کے اساتذہ میں سے ایک نے مشورہ دیا کہ وہ شیخ بننے کا راستہ اختیار کریں اور نجف جائیں۔ حسن نصر اللہ نے یہ مشورہ قبول کر لی اور 16 سال کی عمر میں عراق کے شہر نجف چلے گئے۔
حسن نصر اللہ کی نجف میں موجودگی کے دوران عراق ایک غیر مستحکم ملک تھا جہاں دو دہائیوں تک مسلسل انقلاب، خونی بغاوت اور سیاسی قتل و غارت کا راج رہا۔ اس عرصے کے دوران عراق کے نائب صدر صدام حسین نے خاصا اثر و رسوخ حاصل کر لیا تھا۔
حسن نصر اللہ کے نجف میں قیام کے صرف دو سال بعد بعث پارٹی کے رہنما اور خاص طور پر صدام حسین کے فیصلوں میں سے ایک یہ تھا کہ تمام لبنانی شیعہ طلباء کو عراقی مدارس سے نکال دیا جائے۔
حسن نصر اللہ نے نجف میں صرف دو سال تعلیم حاصل کی اور پھر انھیں یہ ملک چھوڑنا پڑا۔ لیکن ان کی نجف میں موجودگی نے اس نوجوان لبنانی کی زندگی پر گہرا اثر ڈالا۔ ان کی ملاقات نجف میں عباس موسوی نامی ایک اور عالم سے بھی ہوئی۔
موسوی، جو کبھی لبنان میں موسی صدر کے شاگردوں میں شمار ہوتے تھے، روح اللہ خمینی کے سیاسی نظریات سے بہت متاثر تھے۔ وہ نصر اللہ سے آٹھ سال بڑے تھے اور بہت جلد انھوں نے ایک سخت استاد اور ایک بااثر رہنما کا کردار سنبھال لیا۔
لبنان واپس آنے کے بعد یہ دونوں مقامی خانہ جنگی میں شامل ہو گئے۔ تاہم اس بار نصر اللہ عباس موسوی کے آبائی شہر گئے جہاں آبادی کی اکثریت بھی شیعہ تھی۔
اس دور میں نصراللہ تحریک امل کے رکن رہے اور عباس موسوی کے قائم کردہ مدرسے میں تعلیم بھی حاصل کرتے رہے۔

آیت اللہ خمینی سے ملاقات
حسن نصر اللہ کی لبنان واپسی کے ایک سال بعد ایران میں انقلاب آیا اور روح اللہ خمینی نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ یہاں سے ناصرف لبنان کی شیعہ برادری کا ایران کے ساتھ تعلق بالکل بدل گیا بلکہ ان کی سیاسی زندگی اور مسلح جدوجہد بھی ایران میں رونما ہونے والے واقعات اور نظریے سے شدید متاثر ہوئی۔
حسن نصراللہ نے بعد میں تہران میں اسلامی جمہوریہ ایران کے اس وقت کے رہنما سے ملاقات کی اور خمینی نے انھیں لبنان میں اپنا نمائندہ مقرر کیا۔
یہیں سے حسن نصراللہ کے ایران کے دوروں کا آغاز ہوا اور ایرانی حکومت میں فیصلہ ساز اور طاقت کے مراکز سے ان کے تعلقات قائم ہوئے۔
ایران نے لبنان کی شیعہ برادری کے ساتھ تعلقات کو بہت اہمیت دی۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی وجہ سے فلسطینی تحریک بھی انقلابی ایران کی خارجہ پالیسی کی اہم ترین ترجیحات میں شامل تھی۔
اس عرصے کے دوران خانہ جنگی میں گھرا لبنان فلسطینی جنگجوؤں کے لیے ایک اہم اڈہ بن گیا تھا اور قدرتی طور پر بیروت کے علاوہ جنوبی لبنان میں بھی ان کی مضبوط موجودگی تھی۔

اسرائیل کا لبنان پر حملہ اور حزب  اللہ کا قیام
لبنان میں بڑھتے ہوئی عدم استحکام کے بیچ اسرائیل نے لبنان پر حملہ کر دیا اور اس ملک کے اہم حصوں پر تیزی سے قبضہ کر لیا۔ اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ اس نے فلسطینی حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے لبنان پر حملہ کیا۔
اسرائیل کے حملے کے فوراً بعد ہی ایران میں پاسداران انقلاب اسلامی کے فوجی کمانڈروں نے لبنان میں ایران سے وابستہ عسکری گروپ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ تحریک حزب اللہ تھی اور حسن نصراللہ اور عباس موسوی ان لوگوں میں شامل تھے جنھوں نے امل تحریک کے کچھ دیگر ارکان کے ساتھ اس نئے قائم ہونے والے گروپ میں شمولیت اختیار کی۔
اس گروہ نے بہت جلد لبنان میں امریکی افواج کے خلاف مسلح کارروائیاں کرکے خطے کی سیاست میں اپنا نام قائم کیا۔
جب حسن نصر اللہ نے حزب اللہ میں شمولیت اختیار کی تو ان کی عمر صرف 22 سال تھی اور وہ نوآموز سمجھے جاتے تھے۔
تاہم نصر اللہ کے ایران سے تعلقات دن بہ دن گہرے ہوتے جا رہے تھے۔ انھوں نے اپنی دینی تعلیم کو جاری رکھنے کے لیے ایران کے قم شہر جانے کا فیصلہ کیا۔ نصراللہ نے دو سال تک قم میں تعلیم حاصل کی اور اس عرصے کے دوران فارسی سیکھنے کے ساتھ ساتھ ایرانی اشرافیہ میں بہت سے قریبی دوست بنائے۔
لبنان واپسی پر ان کے اور عباس موسوی کے درمیان ایک اہم اختلاف پیدا ہو گیا۔ اس وقت موسوی شام کے صدر حافظ الاسد کے حامی تھے۔ لیکن نصر اللہ نے اصرار کیا کہ حزب اللہ کی توجہ امریکی اور اسرائیلی فوجیوں پر حملوں پر مرکوز رہے۔
نصراللہ حزب اللہ میں اقلیت بن گئے اور کچھ عرصہ بعد انھیں ایران میں حزب اللہ کا نمائندہ مقرر کر دیا گیا۔ وہ ایک بار پھر ایران واپس آئے لیکن حزب اللہ سے دور ہو گئے۔
اس زمانے میں ایسا لگ رہا تھا کہ حزب اللہ پر ایران کا اثر و رسوخ روز بروز کم ہو رہا ہے۔ یہ کشیدگی اس حد تک بڑھی کہ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کو ہٹا کر ان کی جگہ شام کی حمایت کرنے والے عباس موسوی نئے سربراہ بن گئے۔
طفیلی کی برطرفی کے بعد، حسن نصراللہ واپس آ گئے اور عملی طور پر حزب اللہ کے نائب بن گئے۔
عباس موسوی کو حزب اللہ کا جنرل سیکرٹری منتخب ہونے کے ایک سال سے بھی کم عرصے میں اسرائیلی ایجنٹوں نے ان کو قتل کر دیا اور اسی سال، 1992 میں اس گروپ کی قیادت حسن نصر اللہ کے ہاتھ میں چلی گئی۔
اس وقت ان کی عمر 32 سال تھی۔ اس وقت لبنان کی خانہ جنگی کے خاتمے کو ایک سال گزر چکا تھا اور نصر اللہ نے ملک میں حزب اللہ کی سیاسی شاخ کو اپنی عسکری شاخ کے ساتھ ساتھ ایک سنجیدہ کھلاڑی بنانے کا فیصلہ کیا۔
حزب اللہ کی سیاست میں آمد 
اس حکمت عملی کے نتیجے میں حزب اللہ لبنانی پارلیمنٹ کی آٹھ نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی۔
طائف معاہدے کے تحت، جس نے لبنان کی خانہ جنگی کا خاتمہ کیا، حزب اللہ کو اپنے ہتھیار رکھنے کی اجازت دی گئی تھی۔ اس وقت اسرائیل نے جنوبی لبنان پر قبضہ کر رکھا تھا اور حزب اللہ مسلح تحریک چلا رہی تھی۔
لبنان کے حزب اللہ گروپ کو ایران کی مالی مدد مل رہی تھی اور یوں حسن نصر اللہ نے ملک میں سکولوں، ہسپتالوں اور خیراتی اداروں کا ایک وسیع نیٹ ورک تشکیل دیا۔ یہ فلاحی پہلو لبنان میں حزب اللہ کی سیاسی تحریک کی شناخت کا ایک اہم جزو بن گئی۔
حسن نصراللہ کی قیادت میں حزب اللہ گروپ کی مقبولیت میں نمایاں اضافہ ہوا۔
سنہ 2000 میں اسرائیل نے اعلان کیا کہ وہ لبنان سے مکمل طور پر نکل جائے گا اور اس ملک کے جنوبی علاقوں پر قبضہ ختم کر دے گا۔ حزب اللہ گروپ نے اس تقریب کو ایک عظیم فتح کے طور پر منایا اور اس فتح کا سہرا حسن نصر اللہ کے نام لکھا گیا۔
یہ پہلا موقع تھا جب اسرائیل نے امن معاہدے کے بغیر کسی عرب ملک کی سرزمین کو یکطرفہ طور پر چھوڑا اور خطے کے بہت سے عرب شہریوں کی نظر میں اسے ایک اہم کامیابی قرار دیا گیا۔
تاہم اس وقت سے لبنان کے ہتھیاروں کا مسئلہ لبنان کے استحکام اور سلامتی سے متعلق اہم سوالات میں سے ایک بن گیا ہے۔ لبنان سے اسرائیل کے انخلاء کی وجہ سے حزب اللہ گروپ کے مسلح رہنے کی قانونی حیثیت ختم ہو گئی اور غیر ملکی طاقتوں نے حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی درخواست کی جس سے حسن نصراللہ نے کبھی اتفاق نہیں کیا۔
2002 میں حسن نصر اللہ نے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے دوران قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ کیا جس کے دوران 400 سے زائد فلسطینی، لبنانی قیدیوں اور دیگر عرب ممالک کے شہریوں کو رہا کیا گیا۔
اس وقت نصراللہ پہلے سے زیادہ طاقتور اور بااثر دکھائی دے رہے تھے اور لبنانی سیاست میں ان کے حریفوں کے لیے ان کا مقابلہ کرنا اور ان کے اثر و رسوخ اور طاقت کے پھیلاؤ کو روکنا ایک بڑا چیلنج بن چکا تھا۔
 وزیراعظم رفیق حریری کا قتل
1983 میں اس وقت کے لبنان کے وزیر اعظم رفیق حریری کے قتل کے بعد رائے عامہ بدل گئی۔ رفیق حریری کو سعودی عرب کے قریبی اہم ترین سیاستدانوں میں شمار کیا جاتا تھا جنھوں نے حزب اللہ کو روکنے کے لیے بھرپور کوششیں کی تھیں۔
حریری کے قتل کے بعد عوامی غصے کا رخ حزب اللہ اور شام کی جانب ہوا، جن پر حریری کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔ بیروت میں اپوزیشن کے زبردست مظاہروں کے نتیجے میں شام نے اعلان کیا کہ وہ بھی لبنان سے اپنی فوجیں نکال لے گا۔
لیکن جب اسی سال پارلیمانی انتخابات ہوئے تو ناصرف حزب اللہ کے ووٹوں میں اضافہ ہوا بلکہ یہ گروپ دو وزارتیں حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو گیا۔
یہاں سے حسن نصراللہ نے حزب اللہ کو لبنان کے قوم پرست گروپ کے طور پر متعارف کرایا جو دوسری طاقتوں کے تسلط کے سامنے نہیں جھکتا۔
2005 کے موسم گرما میں حزب اللہ کے جنگجو اسرائیل میں داخل ہوئے اور ایک فوجی کو ہلاک اور دو فوجیوں کو یرغمال بنا لیا۔ اسرائیل کا ردعمل ایک شدید حملہ تھا جو 33 34 دن تک جاری رہا، اور اس دوران تقریبا 1200 لبنانی ہلاک ہو گئے۔
اس جنگ کے نتیجے میں حسن نصراللہ کی مقبولیت میں اور اضافہ ہوا جن کو عرب ممالک میں اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنے والے آخری شخص کے طور پر متعارف کرایا گیا۔
 بیروت پر مکمل قبضہ
حزب اللہ کی طاقت میں اضافے کی وجہ سے حریف گروہوں بالخصوص لبنانی سیاست دانوں نے حزب اللہ کیخلاف کوششوں کو تیز کیا۔
2007 میں، کئی مہینوں کی سیاسی کشمکش کے بعد، لبنانی حکومت نے منظوری دی کہ حزب اللہ کے زیر کنٹرول ٹیلی کمیونیکیشن سسٹم کو ختم کر دیا جائے اور ٹیلی کمیونیکیشن کے معاملات صرف حکومت کے کنٹرول میں ہوں۔ اس فیصلے کو ناصرف حسن نصر اللہ نے قبول نہیں کیا بلکہ تھوڑے ہی عرصے میں ان کے مسلح گروہ نے بیروت پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا۔
حسن نصراللہ کے اس اقدام پر مغربی ممالک کی جانب سے شدید تنقید کی گئی۔ لیکن سیاسی مذاکرات کے بعد وہ لبنانی کابینہ میں اپنے گروپ کی طاقت بڑھانے اور کابینہ کے فیصلوں میں ویٹو کا حق حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
2008 میں، لبنانی پارلیمنٹ میں حزب اللہ کی نشستوں کی تعداد کم ہونے کے باوجود، نصر اللہ ویٹو کا حق برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔ اسی سال لبنانی کابینہ نے حزب اللہ کو اپنے ہتھیار رکھنے کی اجازت دی تھی۔
 حسن نصر اللہ لبنان کا سب سے طاقتور شخص
یہاں سے حسن نصراللہ ایک ایسی شخصیت بن گئے کہ لبنان کے سیاسی اشرافیہ میں سے تقریباً کوئی بھی ان کی طاقت کو کم کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔
نہ تو ان کی مخالفت کرنے والے وزرائے اعظم کا استعفیٰ، اور نہ ہی سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی مداخلت انھیں پیچھے دھکیل سکی۔ اس کے برعکس ان تمام برسوں میں اسلامی جمہوریہ ایران کی حمایت سے حسن نصر اللہ شام کی خانہ جنگی اور لبنان میں اقتصادی بحران جیسے تاریخی بحرانوں پر قابو پانے میں کامیاب رہے۔
63 سال کی عمر میں انھیں لبنان میں ناصرف ایک منفرد سیاسی اور عسکری رہنما تصور کیا جاتا ہے بلکہ ان کے ریکارڈ پر کئی دہائیوں کی جدوجہد بھی موجود ہے اور وہ اس کریڈٹ کو اپنے سیاسی حریفوں کی نیندیں اڑانے اور پروپیگنڈا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
حزب اللہ فوج سے بھی طاقتور 

حزب اللہ کو بطور ایک ملیشیا قائم کیا گیا تھا جس کا مقصد لبنان پر حملہ کرنے والے اسرائیلی فوجیوں کے خلاف لڑنا تھا۔ اب یہ ایک ایسی عسکری طاقت ہے جو لبنان کی فوج سے بھی زیادہ طاقتور ہے اور سیاسی جوڑ توڑ میں بھی حصہ لیتی ہے۔ اس تنظیم کے ذریعے لبنان میں صحت، تعلیم اور دیگر سوشل سروسز مہیا کی جاتی ہیں۔ ایران علاقائی اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے لیے حزب اللہ کی حمایت کرتا ہے۔
ان کے اسلامی جمہوریہ ایران اور علی خامنہ ای کے ساتھ بہت قریبی اور خصوصی تعلقات ہیں۔ اس گروپ کو اس وقت لبنان کی اہم ترین سیاسی جماعتوں میں شمار کیا جاتا ہے جس کا اپنا مسلح ونگ بھی ہے۔ حسن نصراللہ، جو لبنان اور دیگر عرب ممالک دونوں میں مقبول ہیں، حزب اللہ کا مرکزی چہرہ سمجھے جاتے ہیں
حسن نصراللہ نے حزب اللہ کو سیاسی اور عسکری طور پر مضبوط کیا ۔ ان کی قیادت میں حزب اللہ نے فلسطینی عسکریت پسند گروہ حماس کے جنگجوؤں کو تربیت دی جبکہ وہ کھل کر عراق اور یمن میں ملیشیا کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ انھوں نے ایران سے میزائل اور راکٹ سمیت دیگر ہتھیار حاصل کیے تاکہ انھیں اسرائیل کے خلاف استعمال کیا جاسکے۔

Watch Live Public News