اسلامی نظریاتی کونسل کی  اثاثہ جات میں  مطلقہ بیوی کو برابر حصہ دینے والے بل کی مخالفت

اسلامی نظریاتی کونسل کی  اثاثہ جات میں  مطلقہ بیوی کو برابر حصہ دینے والے بل کی مخالفت

(ویب ڈیسک )  پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل نے طلاق کے بعد شادی کے عرصے میں بنائے گئے اثاثہ جات میں بیوی کو برابر کا حصہ دینے اور طلاق کے بغیر علیحدہ رہنے والی بیوی کو نان نفقہ دینے اور بالغ بچے اور بچی کے اخراجات والد کی ذمہ داری قرار دینے کے بلوں کی مخالفت کی ہے۔

  اسلامی نظریاتی کونسل نے انھیں اسلامی تعلیمات کے بنیادی تصور کے برعکس قرار دیا ہے۔

سینیٹ آف پاکستان میں سینیٹر علی ظفر اور سینیٹر ثمینہ زہری کی جانب سے دو الگ الگ بل مسلم عائلی قوانین آرڈینینس 1961 میں ترمیم کے لیے پیش کیے گئے۔

سینیٹر علی ظفر نے اپنے بل میں ازدواجی اثاثے کی نئی اصطلاح متعارف کراتے ہوئے تجویز کیا کہ شادی کے عرصے کے دوران بیوی اگر ملازمت کرتی ہے، بچے پالتی یا گھریلو ذمہ داریاں نبھاتی ہے تو اسے شادی کے عرصے میں بنائے گئے اثاثہ جات کا حصہ دار سمجھا جائے گا۔

انھوں نے اپنے بل میں تجویز کیا ہے کہ میاں بیوی میں طلاق کی صورت میں شادی سے پہلے یا شادی کے عرصے کے دوران بیوی کو ملنے والی جائیداد پر تو شوہر کا حق نہیں ہوگا البتہ شوہر کی منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد پر شادی کے عرصے میں بننے والی عمارت پر بیوی کا حق ضرور ہو گا۔

بل میں طلاق کی صورت میں جائیداد کی باہمی رضا سے تقسیم کی صورت میں بھی عدالت سے آرڈر لینا لازمی قرار دیا گیا ہے اور اگر کسی طور پر میاں بیوی میں تقسیم پر کوئی اختلاف ابھرتا ہے تو اس کا فیصلہ بھی فیملی کورٹ کرے گی۔

اس حوالے سے بیرسٹر علی ظفر کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں عورت کو شوہر کے خاندان کی پوری زندگی خدمت کرنے کے بعد بھی طلاق کی صورت میں جائیداد میں حق مانگنے کا اختیار نہیں دیا جاتا۔ اس لیے پاکستان کے خاندانی قوانین میں عورت کے حق میں قانون سازی کی ضرورت ہے تاکہ وہ طلاق کے بعد مالی طور پر خودمختار ہوسکے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’عورت کو شادی کے عرصہ کے دوران بننے والے ازدواجی اثاثوں میں اس کا حصہ ملنا چاہیے کیونکہ اس نے ان کے بننے میں اپنا خون پسینہ شامل کیا ہوتا ہے۔‘

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور کی جانب سے بل پر اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے رائے جاننے کے لیے بل بھجوایا گیا۔ جس کے جواب میں اسلامی نظریاتی کونسل نے لکھا ہے کہ ’شریعت میں ’ازدواجی اثاثے‘ کی اصطلاح کا تصور ہی موجود نہیں ہے۔ طلاق کی صورت میں شوہر واجب الادا حق مہر، دوران عدت نان نفقہ اور رہائش فراہم کرنے کا پابند ہے۔‘

اسلامی نظریاتی کونسل کے مطابق ’حق مہر اور عدت کے دوران نان نفقہ اور رہائش کے علاوہ طلاق کی صورت میں شوہر پر کسی قسم کا مالی حق واجب الادا نہیں ہے۔ شادی کے دوران گھر کے تمام مالی امور کی ذمہ داری مرد پر عائد ہوتی ہے۔ بیوی اگر اپنا ذاتی ملکیتی مال گھر پر خرچ کرتی ہے تو یہ اس کی طرف سے شوہر اور اولاد کے ساتھ حسن سلوک ہے تاہم یہ اس کی ذمہ داری نہیں ہے۔‘

اسی طرح اگر میاں بیوی دونوں کا کوئی مشترکہ اثاثہ ہو جو دونوں کے نام ہو تو اسے ملکیتی حصے کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔ بیوی کی ذاتی استعمال کی اشیاء بھی طلاق کے بعد اسی کی ملکیت رہیں گی

اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا ہے کہ ’اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس بل کے مندرجات سے اتفاق کرنا ممکن نہیں ہے۔‘

اسی طرح سینیٹر ثمینہ زہری کی جانب سے پیش کی گئے بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ طلاق کے بغیر بیوی اگر شوہر سے علیحدہ رہ رہی ہے اور اپنے ازدواجی حقوق ادا کرنے سے گریزاں ہے یا کسی بیماری کی وجہ سے شوہر سے علیحدہ رہنے پر مجبور ہے تو شوہر کو پابند بنایا جائے کہ وہ اس کا خرچہ بھی برداشت کرے۔

اسی طرح اگر بیٹا بالغ ہے تو اس کی تعلیم، صحت اور  رہائش اور خوراک بھی والد کی ذمہ داری قرار دی جائے۔ بالغ بیٹی کی شادی ہو جانے تک اور کسی وجہ سے طلاق ہو جانے کے بعد بھی اس کی ذمہ داری والد پر ہی عائد کی جائے۔

اس معاملے پر جب اسلامی نظریاتی کونسل سے رائے مانگی گئی تو انھوں نے اس پر ایک طویل جواب تحریر کیا ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ یہ بل ایک احسن اقدام ہے کیونکہ اس میں اولاد کے حقوق یقینی بنانے کی بات کی گئی ہے، تاہم اس بل کی کئی شقیں اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ تاہم اس میں اصلاح اور ترامیم کے بعد یہ بل پیش کیا جا سکتا ہے۔‘

اسلامی نظریاتی کونسل کا کہنا ہے کہ ’جہاں یہ تجویز کیا گیا ہے کہ بیوی اگر طلاق کے بغیر لڑ جھگڑ کر یا کسی اور مرد سے تعلقات قائم کرنے کی غرض سے دور ہو تو ایسی صورت میں وہ نان نفقے کی حق دار نہیں ہوگی البتہ بیماری یا کسی اور عذر کی وجہ سے وہ شوہر سے علیحدہ رہتی ہے اور نان نفقہ کا مطالبہ کرتی ہے تو شوہر کو اسے خرچ دینا ہوگا۔‘

اسی طرح اسلامی نظریاتی کونسل کا کہنا ہے کہ ’بالغ بیٹے کا نان نفقہ باپ پر لازم کرنا درست نہیں ہے۔ اس شق میں یہ اضافہ کرنے کی ضرورت ہے کہ طالب علم بیٹا کمانے کے قابل نہ ہو اور باپ کے پاس گنجائش ہو تو وہ اس کو نفقہ دے گا۔ اس کے لیے بھی یہ طے کرنا ضروری ہے کہ بیٹا کمانے کے قابل نہیں ہے اور پڑھائی کے نام پر باپ سے پیسے لے کر ضائع نہیں کر رہا۔ اگر باپ اس کے حالات سے مطمئن نہ ہو تو وہ خرچ دینے کا پابند نہیں ہوگا۔‘

مطلقہ یا بیوہ بیٹی کا نفقہ والد پر لازم قرار دینے کی شق کے حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل کا موقف ہے کہ یہ باپ پر لازم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس میں بعض دیگر امور کو دیکھنے کی ضرورت ہے جیسا اکہ اگر بیٹی مالدار ہو تو وہ اپنا خرچ خود اٹھائے۔ اگر اس کے بیٹے بالغ ہوں تو وہ باپ کے بجائے بیٹوں کی ذمہ داری ہوگی۔

اگر بیٹی کے باپ اور ماں میں بھی علیحدگی ہو چکی ہے اور وہ ماں کے پاس جا کر رہتی ہے تو ایسی صورت میں بھی والد اس کو نفقہ دینے کا پابند نہیں ہو سکتا۔

اسلامی نظریاتی کونسل نے سینیٹر ثمینہ زہری کے بل کو ان کے متن کے مطابق حمایت سے انکار کرتے ہوئے اس کا متبادل متن فراہم کیا ہے اور سفارش کی ہے کہ اسے اس عبارت کے ساتھ منظور کیا جائے۔

Watch Live Public News