پبلک نیوز: کشمیر میں آزادی صحافت شدید خطرے میں، بین الاقوامی ادارے رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے مطابق کشمیر صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے۔
تفصیلات کے مطابق صحافیوں کو ہراساں کرنے، ڈرانے دھمکانے اور یہاں تک کہ جسمانی تشدد کے واقعات بھی غیر معمولی نہیں ہیں ایسے ماحول میں سیلف سنسر شپ بقا کا حربہ بن جاتا ہے،مودی سرکار کی جانب سے کشمیر میں ڈیجیٹل تشدد ایک اہم ہتھیار بن گیا ہے،مودی سرکار کی جانب سے کشمیر میں انٹرنیٹ بندش عام بات بن چکی ہے۔
2019 میں آرٹیکل 370 کی تنسیخ کے بعد مسلسل سات ماہ تک مقبوضہ وادی میں انٹرنیٹ کی طویل ترین بندش رہی،مقبوضہ کشمیر میں کرفیو، راستوں پر رکاوٹیں اور مواصلاتی نظام کی بندش کے باعث صحافیوں کے لیے معلومات فراہم کرنے میں شدید دشواریوں کا سامنا ہے،بھارت نے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعدجموں و کشمیر سے اس کی ریاستی حیثیت اور خودمختاری چھین لی تھی۔
قابض مودی کےاقتدار کے بعد سے کشمیر میں آزادی صحافت پر پابندیوں میں سنگین حد تک اضافہ ہوا ہے،مودی کی جانب سے بدامنی کو روکنے کے اقدامات کی آڑ میں صحافیوں کی درست اور بروقت رپورٹنگ کرنے کی صلاحیت کو بری طرح متاثر کیا گیا، انٹرنیٹ سروسز جزوی طور پر بحال ہونے کے باوجود بھی رسائی محدود اور بہت زیادہ نگرانی کی گئی۔
بھارتی حکومت نے ہر ممکن کوشش کی کہ وہ صحافیوں کی جانب سے تنقیدی رپورٹنگ کو روک کر خوف کا ماحول پیدا کریں، 5اگست 2019 سے کشمیر میں صحافی مسلسل دھمکی کے خطرے سخت پابندیوں کے تحت کام کر رہے ہیں، گزشتہ سال ایمنسٹی انٹرنیشنل، انسانی حقوق اور صحافتی تنظیموں نے بھارت کے زیرِانتظام کشمیر کے فری لانس صحافی عرفان معراج کی گرفتاری کی مذمت کی تھی اور ان کی فوری اور غیرمشروط رہائی کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
کشمیری صحافیوں کا کہنا ہے کہ کشمیر کی صورتحال پر رپورٹ کرنا نہ صرف مقامی صحافیوں کے لیے مشکل ہوچکا ہے بلکہ بین الاقوامی اداروں کے صحافیوں کے لیے بھی رپورٹنگ کرنا نا ممکن ہوگیا ہے،انٹرنیٹ کی مسلسل بندش کے باعث صحافی خبر باوقت عوام تک پہنچانے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔
مقبوضہ وادی میں آزادی صحافت کو سلب کرنے کی باوجود مودی کا یہ دعوہ ہے کہ جموں و کشمیر میں میڈیا کو اپنا کام کسی دھونس یا دباؤ کے بغیر کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔