ویب ڈیسک: اسرائیل میں لاکھوں شہری حکمران اتحاد کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے اور یرغمالیوں کی رہائی کےلیے معاہدے کا مطالبہ کیا۔
ٹائمز آف اسرائیل اور ہارٹز کے مطابق اسرائیل کے بڑے شہروں تل ابیب، یروشلم، قیصریہ، حیفہ سمیت ملک بھر میں مختلف مقامات پر احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ مظاہرین نے حماس سے معاہدے میں ناکامی پر نیتن یاہو حکومت سے مستعفی ہونے اور فوری الیکشنز کا مطالبہ کیا۔
اسرائیلی پولیس نے احتجاج کو کچلنے کے لیے اپنے یہودی شہریوں کو بھی نہ بخشا اور ان پر پل پڑی۔ پولیس نے رکن اسمبلی سمیت احتجاج میں شریک لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔
مظاہرین اور پولیس کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں۔ سیکورٹی اہلکاروں نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے متعدد مظاہرین کو حراست میں لے لیا۔
ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق نئے مظاہرے معمول سے زیادہ بڑے تھے جن میں شریک لوگ وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو پر شدید غصے ہیں کیونکہ اس نے گزشتہ ہفتے میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ صرف ایک “جزوی معاہدے” پر دستخط کرنے کے لیے تیار ہے جس کے تحت غزہ میں اسرائیلی فوجی آپریشن جاری رہے گا۔
مظاہرین نے تقریروں کے بعد سڑکیں بلاک کردیں اور سول نافرمانی کی کوششیں دیکھنے میں آئیں۔ انہوں نے پیرس اسکوائر پر ڈھول بجاتے ہوئے جنگ بند کرو کے نعرے لگائے۔
مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) میں وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی سرکاری رہائش گاہ کے باہر پیرس اسکوائر پر ہونے والے احتجاج میں ایک پولیس افسر نے زیرحراست مظاہرین کو غلیظ گالیاں بکیں اور دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ “میں تمہاری ماں کے ساتھ زیادتی کروں گا۔
ٹی وی پر اس واقعے کی خبر کی نشر ہونے کے بعد اسرائیلی پولیس نے اپنے بیان میں کہا کہ مظاہرین اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کر رہے تھے لیکن پولیس افسر کا طرز عمل ایسا نہیں جیسا ہونا چاہیے۔
دارالحکومت تل ابیب میں مظاہرے میں شریک رکن اسمبلی ناما لازیمی کو پارلیمانی استثنیٰ کے باوجود پولیس افسران دھکے مارتے ہوئے گھسیٹ کر لے گئے۔ انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس اہلکاروں نے مجھ پر حملہ کیا اور میرے بال کھینچے۔
مظاہرین نے وزیراعظم کے دفتر کے باہر آگ لگا دی اور یونین کے چیئرمین آرنون بار ڈیوڈ سے مطالبہ کیا کہ وہ عام ہڑتال اور اسرائیلی معیشت کا پہیہ جام کرنے کی کال دیں تاکہ حکومت پر حماس کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جاسکے۔