ویب ڈیسک : امریکی صدر جو بائیڈن اور چین کے صدر شی جن پنگ کے درمیان 5 ماہ بعد ٹیلے فون رابطہ ، ٹک ٹاک سمیت دونوں رہنماؤں نے تائیوان، مصنوعی ذہانت اور سیکورٹی جیسے اہم امور پر تبادلہ خیال کیا۔
دونوں عالمی طاقتوں کے درمیان ہفتوں تک اعلیٰ سطحی مصروفیات کے بعد فون پر یہ بات چیت ہوئی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور وزیر خزانہ جینٹ ییلن بھی جلد ہی چین کا الگ الگ دورہ کرنے والے ہیں۔
وائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں کہا کہ بات چیت ''صاف اور تعمیری'' تھی اور اس میں متعدد دو طرفہ، علاقائی اور عالمی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
صدر بائیڈن نے امریکہ کی دیرینہ ''چائنہ ون'' یعنی متحدہ چین کی پالیسی کی توثیق کی، تاہم انہوں نے اس بات کا اعادہ بھی کیا کہ واشنگٹن تائیوان کو بیجنگ کے کنٹرول میں لانے کے لیے کسی بھی زبردستی اقدامات کی مخالفت کرتا ہے۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا تھا کہ بائیڈن نے صدر شی جن پنگ کے ساتھ بات چیت کے دوران آبنائے تائیوان میں ''امن اور استحکام'' کو برقرار رکھنے اور بحیرہ جنوبی چین میں ''نقل و حرکت کی آزادی'' کی اہمیت پر زور دیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ چین نے بحیرہ جنوبی چین میں فلپائن کو متنازع سیکنڈ تھامس شوال پر اپنی افواج کو دوبارہ سپلائی فراہم کرنے سے روکنے کی کوشش کی تھی۔
تائیوان میں اگلے ماہ نو منتخب صدر لائی چنگ عہدہ صدارت سنبھالنے والے ہیں، جن کا تعلق ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی (ڈی پی پی) سے ہے۔ بیجنگ نے ڈی پی پی پر ''علیحدگی پسند سرگرمیوں '' میں ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے اور کہا ہے کہ لائی چنگ تعلقات کے لیے ''سخت خطرہ'' ہیں۔''
امریکی صدر نے شی جن پنگ کے ساتھ اپنی گفتگو میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹک ٹاک کی چین کی ملکیت پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ تاہم وائٹ ہاؤس کے مطابق انہوں نے اس پلیٹ فارم کے ذریعے ممکنہ انتخابی مداخلت کے دعووں پر بات نہیں کی۔
چین کے سرکاری میڈیا سی سی ٹی وی کے مطابق دونوں ممالک کے صدور نے مواصلات کو برقرار رکھنے، مشاورت کے طریقہ کار کو فروغ دینے اور دونوں ممالک کی فوجوں کے درمیان رابطے کو جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔
سی سی ٹی وی کے مطابق شی جن پنگ نے کہا، ''ہمیں استحکام کو ترجیح دینی چاہیے، مشکلات کو بھڑکانے سے گریز کرنے کے ساتھ ہی، لائنوں کو عبور نہیں کرنا چاہیے اور اس کے ساتھ ہی چین امریکہ تعلقات کے مجموعی استحکام کو برقرار رکھنا چاہیے۔''
شی نے بائیڈن سے کہا کہ تائیوان ''پہلی سرخ لکیر ہے، جسے عبور نہیں کیا جانا چاہیے'' اور کہا کہ بیجنگ تائیوان کی ''علیحدگی پسند سرگرمیوں '' کی ''بیرونی حمایت'' کو برداشت نہیں کرے گا۔
چینی صدر نے کہا کہ انہوں نے بائیڈن کے اس بیان کو دیکھا ہے کہ واشنگٹن '' تائیوان کی آزادی'' کو مثبت نہیں سمجھتا ہے لیکن امید ہے کہ وہ اس کی جانب سے اس پر عملاً بھی ''کارروائیاں '' ہو گی۔
شی جن پنگ نے بائیڈن کو یہ بھی بتایا کہ اگر واشنگٹن '' چین کی ہائی ٹیک ترقی'' میں رخنہ اندازی جاری رکھے گا، تو ''بیجنگ بھی یونہی خاموش تماشائی بن کر نہیں بیٹھے'' گا۔
چین کی خبر رساں ایجنسی ژنہوا نے چینی صدر کے حوالے سے کہا، ''امریکہ نے چین کی معیشت، تجارت، سائنس اور ٹیکنالوجی کو دبانے کے لیے اقدامات کا ختم نہ ہونے والا ایک سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور چینی کمپنیوں کے خلاف پابندیوں کی فہرست طویل سے طویل تر ہوتی جا رہی ہے۔''
امریکہ نے اس طرح کے ایکسپورٹ کنٹرولز متعارف کرائے ہیں، جس کا مقصد چین کی جدید سیمی کنڈکٹر چپس تک رسائی کو محدود کرنا ہے۔
سی سی ٹی وی نے بتایا کہ دونوں رہنماؤں نے روس کے حملے اور جزیرہ نما کوریا کی صورتحال کے ساتھ ہی یوکرین پر روسی حملے پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ پیونگ یانگ نے حالیہ مہینوں میں اپنے مشرقی ساحل سے متعدد بیلسٹک میزائلوں کا تجربہ کیا ہے، جس سے سیول اور ٹوکیو کی جانب سے تشویشناک ردعمل سامنے آیا ہے۔