پاکستان میں ہائبرڈ نظام ہے، مکمل جمہوریت نہیں:چیف جسٹس

پاکستان میں ہائبرڈ نظام ہے، مکمل جمہوریت نہیں:چیف جسٹس
کیپشن: سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کا معاملہ، فل کورٹ سماعت آج

ویب ڈیسک:سپریم کورٹ آف پاکستان میں 13 رکنی فل کورٹ بینچ کے سامنے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے معاملے پر اپیلوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائر عیسٰی نے ریمارکس دیے کہ پاکستان میں ہائبرڈ نظام ہے، مکمل جمہوریت نہیں۔
تفصیلات کےمطابق  سپریم کورٹ آف پاکستان کا 13 رکنی فل کورٹ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواست پر سماعت کر رہا ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تمام ججز بنچ کا حصہ ہیں جبکہ بیماری کے باعث جسٹس مسرت ہلالی بنچ کا حصہ نہیں ہیں۔

ایڈووکیٹ جنرل  کے پی فیصل صدیقی نے سپریم کورٹ کی گزشتہ سماعت کا حکمنامہ پڑھا،ایڈووکیٹ جنرل  کے پی فیصل صدیقی نے کہاکہ یہاں 2مختلف درخواستیں عدالت کے سامنے ہیں،پشاور ہائیکورٹ میں ہماری حکومت کیخلاف توہین عدالت کی درخواست دائر ہے،پشاور ہائیکورٹ کے آرڈر پر عمل نہ کرنے پر توہین عدالت کی درخواست تھی.

ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے کہاکہ سپریم کورٹ پہلی سماعت پر پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کر چکی ہے۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ فریق بننے کی ایک متفرق درخواست کنول شوزب کی جانب سے دی گئی ہے.

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ فیصل صدیقی کو دلائل مکمل کرنے دیں پھر آپ کو بھی سنیں گے۔

فیصل صدیقی نے سپریم کورٹ میں گزشتہ سماعت کا 3رکنی بنچ کا حکمنامہ پڑھ کر سنایا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیس میں مخالف فریق کون ہیں؟بینیفشری کون تھے جنہیں فریق بنایا گیا؟

وکیل فیصل صدیقی نے کہاکہ جن کو اضافی نشستیں دی گئیں وہ بینیفشری ہیں،مجموی طور پر 77متنازعہ نشستیں ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کی کتنی نشتیں ہیں؟ بریک ڈاؤن دے دیں۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ قومی اسمبلی کی 22اور صوبائی اسمبلی کی 55نشستیں متنازعہ ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ خیبرپختونخوا سے قومی اسمبلی کی 8نشستیں کس کس جماعت کو گئی ہیں؟

وکیل فیصل صدیقی نے کہاکہ مسلم لیگ ن کو 4،جے یو آئی اور پیپلزپارٹی کو 2،2نشستیں اضافی ملی ہیں،ایم کیو ایم کو سندھ سے خواتین کی ایک اضافی نشست ملی ہے۔

وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہاکہ پنجاب سے مسلم لیگ ن کو 9، پیپلزپارٹی کو 2نشستیں ملی ہیں۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے کہ یہ آپ نے 20نشستیں بتائی ہیں۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ اقلیتوں کے کوٹے پر ایک پیپلزپارٹی، ایک ن لیگ، ایک جے یو آئی کو ملی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ یہ 22نشستیں ہیں یا 23ہیں، جو اضافی نشستیں دوسری جماعتوں کو دی گئی ہیں اس کا جواب الیکشن کمیشن سے لیں گے۔

وکیل فیصل صدیقی  نے کہا کہ پنجاب میں سنی اتحاد کونسل کی21 مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دے دی گئیں۔پنجاب میں 19 ن لیگ،استحکام پاکستان پارٹی اور پی پی پی پارلیمنٹرینز کو ایک ایک متنازع نشست دی گئی۔

اقلیتوں کی ایک متنازعہ نشست مسلم لیگ ن ، ایک پیپلزپارٹی کو ملی،خیبرپختونخوااسمبلی میں جے یو آئی کو 8، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کو 5،5نشستیں ملیں،خیبرپختونخوا میں ایک نشست پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین، ایک اے این پی کو ملی،اقلیتوں کی 3متنازعہ نشستیں بھی دوسری جماعتوں کو دے دی گئیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے فیصل صدیقی کو خیبرپختونخواکو کے پی کے بولنے سے روک دیا اور ریمارکس دیئے کہ خیبرپختونخوا کے لوگ اس نام سے بلائے جانے پربرا مناتے ہیں،دیگر صوبوں کیلئے بھی مخفف استعمال کریں یا ان کا بھی پورا نام لیں۔

فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہاکہ معزرت چاہتا ہوں اب کے پی کی جگہ لفظ خیبرپختونخوا بولوں گا۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ مخصوص نشستوں سے متعلق تفصیلات دیکھ کر عدالت کو جواب دونگا۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ امیدواروں نے سرٹیفکیٹ لگایا تھا الیکشن کمیشن نے کہہ دیا آپ آزاد امیدوار ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کو یہ اختیار ہے وہ کسی کو خود آزاد ڈیکلئیر کر دے؟۔جب پارٹی بھی کہہ رہی ہو یہ ہمارا امیدوار ہے امیدوار بھی پارٹی کو اپنا کہے الیکشن کمیشن کا اس کے بعد کیا اختیار ہے؟۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میرا آفس بند کر دیا گیا ہے کچھ دستاویزات نہیں لا سکا۔

 چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کیا کہ ایسی باتیں عدالت میں نہ کریں،اگر آپکا دفتر بند ہے کوئی مسئلہ ہے تو درخواست دیں ہم حکم جاری کریں گے۔ 

 چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا بینفشری جماعتوں میں سے کوئی عدالت میں سنی اتحاد کونسل کی حمایت کرتی ہے؟۔

تمام دیگر جماعتوں نے سنی اتحاد کونسل کی درخواست کی مخالفت کر دی۔پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کی جانب سے سنی اتحاد کونسل کی درخواست کی مخالفت کی گئی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ  اس کا مطلب ہوا آپ سب اضافی ملی ہوئی نشستیں رکھنا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کامران مرتضی سے مکالمہ کیا کہ آپکی جماعت کا پورا نام کیا ہے؟

وکیل کامران مرتضی  نے کہا کہ ہماری جماعت کا نام جمیعت علما اسلام پاکستان ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل  نے ریمارکس دیئے کہ اگر آپکی جماعت سے ف نکال دے تو کیا حیثت ہوگی؟۔

وکیل کامران مرتضی نے کہا کہ پارٹی کا لیڈر نکل جائے تو کس کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔

بیرسٹر گوہر نےروسٹرم پر آکر بات کرنے کی کوشش کی۔

چیف جسٹس پاکستان  نے ریمارکس دیئے کہ ہم صرف وکلاء کو سنیں گے  فیصل صدیقی آپ بات کریں۔عدالت میں سیاسی باتیں نہ کی جائیں۔

جسٹس منیب اختر  نے ریمارکس دیئے کہ مخصوص نشستیں متناسب نمائندگی کے مطابق دینے کا قانون موجود ہے،آئینی و قانونی طور پر ایک سیاسی جماعت کی مخصوص نشستیں دوسری کو نہیں دی جاسکتیں،ایک سیاسی جماعت سے انتخابی نشان واپس لے لیا جائے تو مخصوص نشستیں کیسے ختم ہونگی؟الیکشن کمیشن کے قانون کے مطابق متناسب نمائندگی کا اصول نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

جسٹس جمال مندوخیل  نے ریمارکس دیئے کہ اس کا مطلب پی ٹی آئی موجود تھی اور مخصوص نشستوں کیلئے کاغذات جمع کرائے گئے تھے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کہ فیصل صدیقی صاحب آپ بات جاری رکھیں ججز کے سوالات بعد میں ہوتے رہیں گے۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 22 دسمبر کو تحریک انصاف کو انتخابی نشان سے محروم کر دیا تھا،پشاور ہائیکورٹ نے 10 جنوی کو الیکشن کمیشن کا حکم نامہ کالعدم قرار دیدیا تھا۔ 

جسٹس اطہر من اللہ  نے ریمارکس دیئے کہ 22 دسمبر کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ تھی۔

فیصل صدیقی  نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی اپیل پر سپریم کورٹ نے 13 جنوری کو ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا۔

جسٹس جمال مندوخیل  نے ریمارکس دیئے کہ کیا انتخابی نشان واپس ہونے کے بعد آرٹیکل 17 کے تحت قائم سیاسی جماعت ختم ہوگئی تھی؟ کیا انتخابی نشان واپس ہونے پر سیاسی جماعت امیدوار کھڑے نہیں کرسکتی؟ تاثر تو ایسا دیا گیا جیسے سیاسی جماعت ختم ہوگئی اور جنازہ نکل گیا۔ 

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمار کس دیئے کہ کیا انتخابی نشان واپس ہونے سے سیاسی جماعت تمام حقوق سے محروم ہوجاتی ہے؟۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ کیا یہ اخذ کر سکتے ہیں کہ پی ٹی آئی بطور جماعت برقرار تھی اور مخصوص نشستوں کی فہرستیں بھی جمع کرائی تھیں؟ 

فیصل صدیقی  نے کہا کہ پی ٹی آئی نے فہرستیں جمع کرائیں لیکن الیکشن کمیشن نے تسلیم نہیں کیں۔

چیف جسٹس  نے ریمارکس دیئے کہ سوالات کو چھوڑیں اپنے طریقے سے جواب دیں۔

فیصل صدیقی نے ہنستے ہوئے جواب دیاکہ شکر ہے ابھی آپ نے سوال نہیں پوچھے۔

جسٹس منیب اختر  نے ریمارکس دیئے کہ فل کورٹ میں بیٹھنے کا مزہ اور تکلیف یہی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ کیا الیکشن کمیشن کسی سیاسی جماعت کے خلاف جا سکتا ہے؟

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کو آرٹیکل 218(3)کا حوالہ دینا بہت پسند ہے،بادی النظر میں الیکشن کمیشن نے منطق کے بغیر فیصلہ دیا،ایک سیاسی جماعت الیکشن لڑ رہی ہو تو اس سے مخصوص نشستیں کیسے واپس لے سکتے ہیں؟۔ 

جسٹس جمال مندوخیل  نے ریمارکس دیئے کہ اگر پی ٹی آئی خود جماعت ہے تو کیس ختم ہوگیا،پی ٹی آئی کی مخصوص نشستیں پھر سنی اتحاد کونسل کیسے لے سکتی ہے؟۔ 

جسٹس اطہر من اللہ  نے ریمارکس دیئے کہ پی ٹی آئی سیاسی جماعت ہے اس کو مخصوص نشستیں ملنی چاہئیں،یہ سارا معاملہ عوام کا ہے،عوام سے ان کا حق نہیں لیا جاسکتا۔

جسٹس منیب اختر  نے ریمارکس دیئے کہ نوٹیفیکیشن کے مطابق سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں کوئی نشست نہیں جیتی تھی، الیکشن کمیشن کے احکامات میں کوئی منطق نہیں لگتی،الیکشن کمیشن ایک جانب کہتا ہے سنی اتحاد الیکشن نہیں لڑی ساتھ ہی پارلیمانی جماعت بھی مان رہا ہے،اگر پارلیمانی جماعت قرار دینے کے پیچھے پی ٹی آئی کی شمولیت ہے تو وہ پہلے ہوچکی تھی۔

جسٹس اطہر من اللہ  نے ریمارکس دیئے کہ اگر سنی اتحاد کونسل سے غلطی ہوئی تھی تو الیکشن کمیشن تصحیح کر سکتا تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل  نے ریمارکس دیئے کہ اگر ایسا ہو جائے تو نشستیں پی ٹی آئی کو ملیں گی سنی اتحاد کو نہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ عوام کو کبھی بھی انتخابی عمل سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ عوام نے کسی آزاد کو نہیں بلکہ سیاسی جماعت کے نامزد افراد کو ووٹ دیے۔

ججز کے سوالات پر چیف جسٹس نے  فیصل صدیقی کو جواب دینے سے روک دیا۔

چیف جسٹس اور جسٹس منیب اختر کے درمیان جملوں کا تبادلہ۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم آپ کو سننے بیٹھے ہیں ہم اپنا فیصلہ کر لیں گے،میں ایک بار ایک عدالت پیش ہوا تو کہا تھا آپ اگر فیصلہ کر چکے ہوئے تو میں اپناکیس ختم کرتا ہوں،آپ اپنے دلائل نہیں دینگے تو مجھے کیا سمجھ آئے گی کہ آپ کی جانب سے کیا لکھنا ہے، میرا خیال ہے فیصل صدیقی صاحب ہم آپ کو سننے بیٹھے ہیں۔ 

جسٹس منیب اختر  نے ریمارکس دیئے کہ یہ ایک غیرذمہ دارانہ بیان ہے،فل کورٹ میں ہر جج کو سوال پوچھنے کا اختیار اور حق حاصل ہے۔

چیف جسٹس  نے ریمارکس دیئے کہ فیصل صاحب آگے بڑھیں میں نے ہلکے پھلکے انداز میں بات کی تھی۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ اس قسم کا غیرذمہ دارانہ بیان تسلیم نہیں کیاجاسکتا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی  نے ریمارکس دیئے کہ پی ٹی آئی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کا ریکارڈ دکھائیں۔

وکیل فیصل صدیقی  نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کا ریکارڈ کچھ دیر تک جمع کرا دیتے ہیں،الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ 

چیف جسٹس پاکستان  نے ریمارکس دیئے کہ اگر الیکشن کمیشن غیر قانونی کام کرے تو کیا ہم اس پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل  نے ریمارکس دیئے کہ آئین کے مطابق 3 روز میں آزاد امیدوار کوئی جماعت چن سکتے ہیں،ہوسکتا ہے 4 روز بعد پی ٹی آئی سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئی ہو،ریکارڈ دکھا دیں کس روز پی ٹی آئی نے درخواست کی اور سنی اتحاد کونسل نے منظور کی۔ 

وکیل سنی اتحاد کونسل  نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کا تمام ریکارڈ دے دیتے ہیں۔

چیف جسٹس  نے ریمارکس دیئے کہ صرف ایک کاغذکے ٹکڑے سے کیسے مان لیں کہ سنی اتحاد کونسل میں پی ٹی آئی کی شمولیت ہوگئی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی جماعت کے حقوق عوام کے حقوق ہوتے ہیں،سب سے زیادہ ووٹر کا حق متاثر ہورہا ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن خود آزاد امیدواروں کو سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے کی اجازت دے چکا۔

جسٹس جمال مندوخیل  نے ریمارکس دیئے کہ پی ٹی آئی کے امیدوار تھے تو سنی اتحاد کونسل میں کیسے جاسکتے تھے؟عوام نے تو پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا سنی اتحاد کونسل کو نہیں۔ 

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ سنی اتحاد کونسل میں شمولیت پر اعتراض نہیں کیا تو مخصوص نشستوں پر کیسے ہوسکتا ہے؟،یا تو الیکشن کمیشن پہلے کہہ دیتا کہ آپکو مخصوص نشستیں نہیں ملیں گی،پی ٹی آئی جب سنی اتحاد کونسل میں ضم ہوگئی پھر کہا گیا مخصوص نشستیں نہیں ملیں گی۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ ہم حقیقت کو کیوں نہ دیکھیں، سنی اتحاد کونسل ہمارے سامنے اس لیے ہے کہ اس میں پی ٹی آئی کے جیتے لوگ شامل ہیں۔

چیف جسٹس نے  فیصل صدیقی سے مکالمہ کیا کہ آپ کو دلائل میں کتنا وقت لگے گا؟

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میں دلائل میں 2 سے 3 گھنٹے لوں گا اور کچھ دستاویزات پیش کروں گا۔

چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ کیا سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا؟۔

وکیل فیصل صدیقی  نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل نے الیکشن نہیں لڑا یہی تو مسئلہ بنا ہوا ہے۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے کہ یہ بھی شامل کر لیں کہ سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کیلئے لسٹ بھی نہیں دی تھی۔

وکیل فیصل صدیقی نےکہا کہ قانون کے مطابق مخصوص نشستوں کیلئے کسی جماعت کا الیکشن لڑنا ضروری نہیں،آزاد امیدوار کسی جماعت میں شامل ہوجائیں تو مخصوص نشستیں دی جانی ہیں،ماضی میں ایک قانون آیا تھا کہ مخصوص نشستوں کیلئے الیکشن لڑنا اور 5 فیصد ووٹ لینا لازم تھا،وہ قانون بعد میں ختم کر دیا گیا تھا۔

چیف جسٹس پاکستان  نے ریمارکس دیئے کہ سنی اتحاد کونسل نے الیکشن نہیں لڑا حقیقت میں پوزیشن یہی ہے،الیکشن کمیشن اس کے بعد سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت تسلیم کر چکا ہے۔

جسٹس منیب اختر  نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن ایکٹ میں کہا نظر نہیں آیا کہ مخصوص نشستیں کا فارمولا تبدیل ہوا ہے،موجودہ الیکشن ایکٹ میں بھی مخصوص نشستیں متناسب نمائندگی سے ملیں گی،الیکشن کمیشن اپنی مرضی سے مخصوص نشستیں کیسے دے سکتا ہے؟۔

جسٹس جمال مندوخیل  نے ریمارکس دیئے کہ کیا آزاد امیدوار اپنی سیاسی جماعت بنا سکتے ہیں؟۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ کینیڈا کی سپریم کورٹ کا دورہ کیا وہاں وکیلوں کیلئے ایک گھنٹے کا وقت تھا، ججز نے سوال بھی کیے پھر بھی مقررہ وقت میں وکیل نے دلائل ختم کیے۔

وکیل فیصل صدیقی  نے کہا کہ پاکستان میں بھی وکیلوں کے دلائل کیلئے وقت مقرر ہونا چاہیے۔

چیف جسٹس پاکستان  نے ریمارکس دیئے کہ ہوسکتا ہے زیادہ ووٹ لینے والی جماعت اقلیت میں چلی جائے،پاکستان میں غیر جماعتی انتخابات بھی ہوئے جس کا آپکو پتا ہے کون کرواتا ہے،مجبور کیا جاتا ہے کہ سیاسی جماعت میں آئیں ورنہ آزاد کی حیثیت نہیں۔

جسٹس عرفان سعادت  نے ریمارکس دیئے کہ ایسی جماعت جو انتحابات نہ لڑی ہو اسے تو سیاسی جماعت بھی نہیں کہا جاسکتا،مخصوص نشستوں کی بحث تو ختم ہوجاتی ہے جب سنی اتحاد کونسل سیاسی جماعت ہی نہیں۔ 

جسٹس عرفان سعادت نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کیا کہ اس سوال کا جواب بھی آئندہ سماعت پر دے دیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ کیا سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کو عوام کا حق ختم کرنے کی اجازت دے سکتی ہے؟۔

جسٹس جمال مندوخیل  نے ریمارکس دیئے کہ کیا ایسا ممکن نہیں کہ پی ٹی آئی کی نشستیں ہیں انھیں واپس دے دی جائیں۔

وکیل فیصل صدیقی  نے کہا کہ پہلے ہم سے بلا لے لیا پھر کہا گیا آو بیٹنگ کریں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل  نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے بیٹسمین سے بلا نہیں لیا گیا۔

جسٹس منیب اختر  نے ریمارکس دیئے کہ آپ تو کہتے ہیں بلے کے بغیر ہماری بلے بلے ہوگئی۔

جسٹس عرفان سعادت خان نے ریمارکس دیئے کہ مومن اگر ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی۔

چیف جسٹس  نے ریمارکس دیئے کہ اگر ایک سیاسی جماعت 100 سیٹوں پر الیکشن لڑے اور ہر سیٹ ایک ووٹ سے ہار جائے، ہوسکتا ہے کوئی جماعت کہے مجھے ووٹ سب سے ذیادہ ملے،جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو پوری جمہوریت کو دیکھنا چاہیے۔ 

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے مطابق انتخابات کے دو مراحل ہیں الیکشن سے پہلے اور بعد کا، نشست حاصل کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ الیکشن میں جیتنا ضروری ہے،آزاد امیدواروں کی شمولیت سے بھی نشستیں لی جا سکتی ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان  نے ریمارکس دیئے کہ ہمیشہ کہتا ہوں کہ سیاسی معاملات پارلیمنٹ میں حل ہونے چاہئیں،عدلیہ سے کوئی خوش جاتا ہے تو کوئی ناراض ہوجاتا ہے۔

وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ بغیر بلے کے ہم شعیب اختر کا کیسے سامنا کرتے؟۔

جسٹس اطہر من اللہ  نے ریمارکس دیئے کہ پیپلزپارٹی پارلیمنٹرینز اس لیے بنی تھی کیونکہ تلوار کا نشان لے لیا گیا تھا،پیپلزپارٹی اور ن لیگ سے بھی انتخابی نشان واپس لیا گیا تھا،سیاسی جماعتوں کیساتھ ایسا ہوتا رہا ہے۔ 

چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کیا کہ کل کو سنی اتحاد کونسل کے سربراہ حکومت کا ساتھ دینا شروع کر دیں تو کیا ہوگا؟،آپ سمجھ رہے ہیں ناں کل کو ایسا ہوجائے تو کیا ہوگا۔

فیصل صدیقی نے دلائل دیے کہ قانون کے مطابق مخصوص نشستوں کیلئے کسی جماعت کا الیکشن لڑنا ضروری نہیں، آزاد امیدوار بھی جماعت میں شامل ہوجائیں تو مخصوص نشستیں دی جانی ہیں۔

سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔

قبل ازیں مئی میں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو مختص کرنے کے فیصلے کو معطل کر دیا تھا۔جسٹس منصور علی شاہ نے سماعت کے دوران ریمارکس دیئے تھے کہ عوام نے جو مینڈیٹ دیا ہے اس کی پارلیمنٹ میں صحیح نمائندگی ہونی چاہیے۔عدالت نے مخصوص نشستوں کا معاملہ ججز کمیٹی کو بھیج دیا تھا تاکہ یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ اس کیس کی سماعت وہی بنچ کرے گا یا بڑا بنچ تشکیل دیا جائے گا۔

Watch Live Public News