آسٹریلیا کے بعد جاپان نے بھی پاکستانی آم برآمد کرنے کی اجازت دیدی

آسٹریلیا کے بعد جاپان نے بھی پاکستانی آم برآمد کرنے کی اجازت دیدی

وب ڈیسک: پھلوں کا بادشاہ کہہ لیں، چونسہ، لنگڑا، سندھڑی، دوسہری، انور رٹول، سرولی یا پھر کوئی بھی اور قسم کا نام لے لیں، آپ کے ذہن میں آم کے ذائقے گھومنے لگ جاتے ہیں۔ ان ذائقوں کے سحر میں نہ صرف پاکستانی جکڑے ہوئے ہیں، بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں بسنے والے لوگ بھی ان کی محبت کے شکار ہیں۔

پاکستان میں پک کر تیار ہونے والے آموں کو منگوانے کے لیے آسٹریلیا، چین اور جاپان سے ممالک بے چین تھے۔ بالآخر آسٹریلیا اور چین کو آم برآمد کرنے کے لیے منظوری دی گئی۔ اب آسٹریلیا اور چین کے بعد جاپان کے لیے بھی منظوری کا پروانہ جاری کر دیا گیا ہے۔

اس حوالے سے وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے تجارت رزاق داؤد نے تصدیق کر دی ہے۔ انھوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر جاری کردہ ٹویٹ پیغام میں کہا ہے کہ جاپان کی جانب سے بھی آسٹریلیا کے بعد آم برآمد کرنے کی منظوری مل گئی ہے۔ یہ ایک بڑی خوشخبری ہے۔

انھوں نے اپنی ٹویٹ میں مزید لکھا کہ پاکستان میں رومی فوڈز وانپ ہیٹ ٹریٹمنٹ پلانٹ جاپان کے لیے آم برآمد کر سکے گا جس کو جاپانی حکام نے اجازت دی ہے۔ انھوں نے جاپانی حکومت کو مبارک بھی دی اور کہا کہ پلانٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ آف پاکستان اور ٹریڈ کونسل ٹوکیو جاپان کی فراہم کردہ سہولتوں کو سراہا۔

خیال رہے کہ اس سے قبل آسڑیلیا کی جانب سے پاکستان میں موجود دو پراسیسنگ پلانٹس کو آم برآمد کرنے کے لیے اجازت دی گئی تھی۔ آسٹریلیا اور جاپانی اگر پاکستانی آم در آمد کرتے ہیں تو اس سے ملکی برآمدات میں واضح اضافہ ہو گا۔ پاکستانی حکومت چین کی جانب سے آم کی درآمد میں اضافہ کے لیے کوشاں ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان میں آم کی سب سے زیادہ پیداوار سندھ اور پنجاب میں ہوتی ہے۔ پاکستان میں آم کی 200 سے زائد قسمیں ہیں۔ 200 قسم کے آم تجارتی مقاصد کے تحت کاشت کیے جاتے ہیں۔ پاکستان کا آم متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، مسقط، عمان، کویت، بحرین، فرانس، جرمنی، ناروے، ہالینڈ، سنگا پور، ہانگ کانگ اور ملائیشیا سمیت دنیا دیگر کئی ممالک میں برآمد کیا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ چین نے سندھڑی آموں کے لیے برآمد کی منظوری دے دی ہے۔ پاکستانی سندھڑی آم 10 جون سے چین برآمد کیا جائے گا۔ اس حوالے سے بھی مشیر تجارت کی جانب سے تصدیقی ٹویٹ جاری کی گئی تھی۔

شازیہ بشیر نےلاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی سے ایم فل کی ڈگری کر رکھی ہے۔ پبلک نیوز کا حصہ بننے سے قبل 42 نیوز اور سٹی42 میں بطور کانٹینٹ رائٹر کام کر چکی ہیں۔