ایران نے ہیکروں کو بنکوں کا ڈیٹا شائع کرنے سے روکنے کے لیے تین ملین ڈالر ادا کیے

ایران نے ہیکروں کو بنکوں کا ڈیٹا شائع کرنے سے روکنے کے لیے تین ملین ڈالر ادا کیے

 ویب ڈیسک: امریکی ذرائع کا کہنا ہے کہ گذشتہ ماہ ایران پر ہونے والے بڑے سائبر حملے نے اس کے بینکنگ سسٹم کے استحکام کو خطرے میں ڈال دیا تھا جس کے بعد ایرانی حکومت کو لاکھوں ڈالر مالیت کے تاوان کے معاہدے پر راضی ہونے پر مجبور کر دیا۔

امریکی اخبار’پولیٹیکو‘نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ ایک ایرانی کمپنی نے گذشتہ ماہ کم از کم 3 ملین ڈالر تاوان ادا کیا تاکہ ہیکرز کے ایک نامعلوم گروپ کو 20 مقامی بینکوں کے انفرادی اکاؤنٹ کا ڈیٹا شائع کرنے سے روکا جا سکے جو کہ ملک میں اب تک کا بدترین سائبر حملہ معلوم ہوتا ہے۔

حکام نے کہا کہ IRLeaks کے نام سے سرگرم ایک گروپ جس کی ایرانی کمپنیوں کو ہیک کرنے کا ایک ٹریک ریکارڈ ہے اس ہیک کے پیچھے ممکنہ طور پر ملوث تھا۔

کہا جاتا ہے کہ ہیکرز نے ابتدائی طور پر ان کے جمع کردہ ڈیٹا کو فروخت کرنے کی دھمکی دی تھی، جس میں لاکھوں ایرانیوں کے ذاتی اکاؤنٹس اور کریڈٹ کارڈ کا ڈیٹا شامل تھا۔ انہیں نے ڈیٹا شائع نہ کرنے کے لیے ایرانی حکومت سے کرپٹو کرنسی میں 10 ملین ڈالر مانگے تھے لیکن بعد میں تھوڑی سی رقم پر معاملات طے پا گئے تھے۔

حکام نے بتایا کہ ایران میں حکومت نے ہیکروں کے ساتھ معاہدے پر اس لیے زور دیا تاکہ ڈیٹا کی چوری ملک کے پہلے سے ہی غیر مستحکم مالیاتی نظام کو مزید غیر مستحکم نہ کر دے۔ یہ سائبر حملہ ایک ایسے وقت میں ہو جب ایران بین الاقوامی پابندیوں کا سامنا کرنے کے درمیان شدید دباؤ میں ہے۔

ایران نے اگست کے وسط میں ہونے والے ہیک کو کبھی تسلیم نہیں کیا، جس نے ملک بھر میں بینکوں کو ’اے ٹی ایم‘ بند کرنے پر مجبور کیا۔

اگرچہ حملے کی اطلاع اس وقت ایران کی بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی نے دی تھی تاہم مشتبہ ہیکرز یا تاوان کے مطالبات کا انکشاف نہیں کیا گیا تھا۔

ایرانی رہ نما نے حملے کے تناظر میں ایک مبہم پیغام دیا۔ پیغام میں کہا کہ امریکہ اور اسرائیل کو ’ خوف پھیلانے‘ کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ہیکنگ میں ملوث ہونے کا الزام عاید کیا۔

اسرائیل ، امریکہ اورایران کے درمیان وسیع ترکشیدگی کے پیش نظر یہ الزام معقول معلوم ہوتا ہے جہاں تہران ایران میں حماس کے ایک سینیر رہ نما کے حالیہ قتل کے لیے اسرائیل کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ واشنگٹن نے ایران پر الزام لگایا ہے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کو ہیک کر کے امریکی انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔

اس تناؤ کے باوجود ایرانی بینک ہیک سے واقف لوگوں نے ’پولیٹیکو‘ کو بتایا کہ IRLeaks کا امریکہ سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی اسرائیل سے۔ یہ حملہ آزاد ہیکرز کا کام ہو سکتا ہے اور اس حملے کا محرک بنیادی طور پرمالی محرکات سے متاثرتھا۔

ایران کا مالیاتی شعبہ طویل عرصے سے ملک کا کمزور نقطہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ ایرانی بینک بین الاقوامی معیار کے مطابق کم سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور ان قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں جو وہ حکومت کو دینے پر مجبور ہیں۔ اس شعبے میں سب سے بڑا قرض لینے والا ہے۔

فروری میں ایران کے مرکزی بینک کے سربراہ نے کہا تھا کہ ملک کے آٹھ بینکوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے اور انہیں ضم یا تحلیل کر دیا جائے گا۔

ان خدشات کے باوجود ایرانی اپنی رقم بینکوں میں جمع کرواتے رہتے ہیں اور اپنے روزمرہ کے لین دین کو سنبھالنے کے لیے ان پر انحصار کرتے ہیں۔

Watch Live Public News