ویب ڈیسک: حکومت نے سوشل میڈیا کو ’اپنے طریقے‘ سے کنٹرول کرنے کے لیے انٹرنیٹ کمپنیز میں فائروال (فلٹر) لگانے کی تمام تیاری کرلی ہے ۔ اس اقدام سے سماجی روابط کی ویب سائٹ سائٹس پر ’قابلِ اعتراض مواد‘ مواد روکنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان میں فائر وال کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ سرکاری ادارے فائر وال ویب سائٹس اور سوشل ایپس کو بلاک کرنے کیلئے
اس کا ااتعمال کرتے ہیں۔
مگر اب فائر وال کے استعمال کا دائرہ وسیع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
پی ٹی اے نے 2013 میں کینیڈین کمپنی نیٹ سویپر کے فائر والز یعنی فلٹرز نصب کروائے تھے۔ تازہ ترین ٹیکنالوجیز کی مدد سے تیار کیے جانے والے فائر والز کی مدد سے سوشل میڈیا کے مواد کی مانیٹرنگ آسان اور موثر ہوجائے گی۔
واضح رہے کہ فائر وال سے2 مقاصد پورے ہوں گے۔
اس حوالے سے ایک عہدیدار نے بتایا کہ “فائر وال سے دو مقاصد پورے ہوں گے: ان مقامات کی نشاندہی کی جا سکے گی جہاں سے پروپیگنڈا مواد شروع کیا جا رہا ہے اور اس کے نتیجے میں ان اکاؤنٹس کی بندش یا رسائی کو محدود کیا جاسکے گا۔ انہوں نے بتایا کہ میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کی توجہ پروپیگنڈا مواد کے ماخذ کا پتہ لگانے پر مرکوز ہوگی تاکہ برائی کو جڑ سے ختم کیا جسکے۔
الفاظ کا فلٹر سسٹم
نئے سیٹ اپ میں ایسے مواد کا پتہ لگانے کے لیے ’الفاظ کا فلٹرنگ سسٹم‘ ہوگا جسے حکومت ناپسندیدہ یا قومی سلامتی کے لیے متعصب سمجھتی ہے۔ ایسے معاملات میں، فلٹر ایک انفارمیشن انسپکٹر کی طرح کام کرے گا۔
حکومت یا حکومت کے کسی ادارے کے لیے استعمال کیے گئے ناپسندیدہ لفظ یا الفاظ پر مبنی پوسٹ کی رسائی انتہائی محدود یا مکمل طورپر مخفی ہوجائے گی۔ اس اعتبار سے فائر وال کے ذریعے ملک کے اندر اور باہر تمام ’ناپسندیدہ پوسٹس‘ معائنے کے عمل سے گزریں گی۔
وی پی این کا ’غلط استعمال‘ کو روکنا
فائر وال فلٹرز فیس بک، یوٹیوب اور ایکس جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپنا چیک اینڈ بیلنس کرے گا۔ ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس یعنی وی پی این کے ’غلط استعمال‘ کو روکنے کے لیے بھی تیاری جاری ہے۔
واضح رہے کہ سوشل میڈیا کی کسی ویب مثلاً ایکس کو بندش کا سامنا ہوتا ہے تو وی پی این کا استعمال کرکے ’ایکس‘ تک رسائی حاصل کی جاتی ہے۔ دراصل یہ ایک چور راستہ ہے۔ حالیہ دنوں میں پاکستان میں ایکس پر وسیع پیمانے پر بندش رہی تب پاکستان کے لاکھوں صارفین نے وی پی این کے ذریعے ایکس تک رسائی حاصل کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
اب حکومت شہریوں کے لیے یہ لازمی قرار دے سکتی ہے کہ وہ پی ٹی اےکو ان وی پی اینز کے بارے میں مطلع کریں جو وہ استعمال کر رہے ہیں۔ جو بھی ایسا کرنے میں ناکام رہے وہ مشکل میں پڑ سکتا ہے۔
ایک سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ سوشل میڈیا کے بڑے پلیٹ فارمز پہلے قابلِ اعتراض مواد سے متعلق ہماری شکایات نہیں سنتے تھے مگر اب وہ شکایت کیے جانے پر متوجہ ہوتے ہیں۔