پہلے بینچ دیکھ کرکیس کا فیصلہ بتادیا جاتا تھا،نہیں پتہ ساتھ بیٹھے ججز کیا فیصلہ دینگے،چیف جسٹس

پہلے بینچ دیکھ کرکیس کا فیصلہ بتادیا جاتا تھا،نہیں پتہ ساتھ بیٹھے ججز کیا فیصلہ دینگے،چیف جسٹس
کیپشن: سپریم کورٹ ، نئے عدالتی سال کے موقع پر فل کورٹ ریفرنس شروع

ویب ڈیسک: سپریم کورٹ آف پاکستان میں نئے عدالتی سال کے آغاز پر فل کورٹ ریفرنس منعقد ہوا جس کی سربراہی چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کی۔اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ پہلے بینچ دیکھ کر بتادیا جاتا تھا کہ کیس کا فیصلہ کیا ہوگا۔ اب نہیں پتہ ساتھ بیٹھے ججز کیا فیصلہ دیں گے۔

تفصیلات کے مطابق فل کورٹ ریفرنس کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ فل کورٹ ریفرنس کی تقریب سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پر لائیو دکھائی جارہی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر فل کورٹ ریفرنس میں شریک نہیں ہوئے۔ جسٹس منصور علی شاہ بیرون ملک ہونے کی وجہ سے شریک نہیں ہوئے۔ ایڈہاک ججز جسٹس مظہر عالم میاں خیل بھی فل کورٹ ریفرنس میں شریک نہیں ہوئے۔ 

شریعت اپیلیٹ بنچ کے ارکان جسٹس قبلہ ایاز، جسٹس خالد مسعود بھی فل کورٹ ریفرنس میں شریک ہوئے۔ 

چیف جسٹس کا نئے عدالتی سال کے آغاز پر فل کورٹ ریفرنس سے خطاب

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا ہے کہ پہلے بینچ دیکھ کر ہی بتا دیا جاتا تھا کہ کیس کا فیصلہ کیا ہو گا۔

فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے مواقع پر اس بات پر نظر ڈالی جاتی ہے کہ ادارے کی کارگردگی کیسی رہی، اٹارنی جنرل اور بار کے نمائندوں نے بتایا کہ کس طرح کارگردگی بہتر کی جا سکتی ہے، مجھے 9 دن بعد بطور چیف جسٹس ایک سال مکمل ہو جائے گا، میں جب چیف جسٹس بنا تو 4 سال میں پہلی مرتبہ فل کورٹ بلایا۔

انہوں نے کہا کہ میں نے سپریم کورٹ کی پروسیڈینگ کو براہ راست نشر کرنے کا آغاز بھی کیا، پہلا مقدمہ ہو براہراست دکھایا گیا وہ پریکٹس ایند پروسیجر ایکٹ کا تھا جو فل کورٹ نے ہی سنا، اس فیصلہ کے بعد اختیار چیف جسٹس سے لے کر 3 ججز کو سونپے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلے بینچ دیکھ کر ہی بتا دیا جاتا تھا کہ کیس کا فیصلہ کیا ہو گا، اب تو مجھے خود بھی معلوم نہیں ہوتا کہ میرے دائیں بائیں جانب کون سے ججز کیس سنیں گے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ پہلے کاز لسٹ منظوری کے لیے چیف جسٹس کے پاس جاتی رہی، اب ایسا نہیں ہوتا، ہر جج کا کچھ نہ کچھ رجحان ہوتا ہے اس لیے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر کیس اس جج کے پاس لگے گا تو کسے فائدہ ہو سکتا ہے، ہر وکیل یہ چاہتا تھا کہ اس کا کیس فلانے جج کے پاس لگ جائے، یہ بھی ختم ہوگیا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ وکیل کا جج کے ساتھ کوئی رابطہ ہے لیکن ان کو پتا کہ اس جج کا رجحان کس طرف ہے تو یہ سسٹم ہم نے ختم کردیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ اب بینچز بنانے کا اختیار صرف چیف جسٹس کا نہیں ہے، دوسری چیز جو ختم ہوگئی وہ ماہانہ کاز لسٹ تھی، ایک دم سے کیس لگ جاتا تھا، مجھے اچانک بتایا جاتا تھا کہ کل کیس لگ گیا، اب رجسٹری میں کیس سننے کی سہولت موجود ہے، لیکن اب ماہانہ کاز لسٹ شروع ہوگئی ہے، اب وکیلوں کو پتا ہوتا ہے کہ مقدمہ کب لگے گا، ہم کوشش کریں گے کہ وکیلوں کی سہولت کے لیے ہر دو ہفتے بعد کاز لسٹ جاری کی جائے۔

انہوں نے بتایا کہ کچھ لوگ پراسیکیوشن کی بات زیادہ مانتے ہیں، کچھ شک کی نظر سے دیکھتے ہیں، یہ چیزیں دنیا کے ہر سسٹم میں موجود ہے، یہ چیزیں آپ تجربے سے سیکھتے ہیں، اگر سوچ سمجھ کے کیسز لگائے جائیں تو شفافیت نہیں ہوگی۔

انہوں نے بتایا کہ ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کا کیس فورا لگ جائے، قطاریں ہوتی ہیں، اگر کوئی فرد قطار میں لگا ہے تو اسے کوئی تکلیف نہیں ہے کہ اس کو نمبر دو سال بعد آئے یا تین سال بعد، اس کو تکلیف ہوتی ہے جب کوئی اچانک سے میرے سامنے آجائے قطار میں، کچھ مخصوص قسم کے کیسز جن کا قانون میں اندراج ہے کہ وہ جلد سنیں جائیں تو ان کو ترجیح جاتی ہے، اس میں بچوں کی سرپرستی کے معاملات وغیرہ شامل ہیں ان میں ہوتا ہے کہ ان کو جلدی لگایا جائے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں پہلے آئیں کا فارمولا استعمال ہوتا ہے، اب ہمیں سپریم کورٹ پروسیجر ایکٹ میں جو تقاضے ہوتے ہیں وہ پورے کرنے ہوتے ہیں، کچھ پرانے صحافی کہتے ہیں کہ چیف جسٹس نے مقدمہ نہیں لگایا تو چیف جسٹس اب مقدمہ نہیں لگا سکتے، اب کمیٹی لگاتی ہے اور شفافیت کے لیے کمیٹی کے فیصلے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر لگائے جاتے ہیں، ان کو خود پڑھا جاسکتا ہے، تبصرے حقیقت کی بنیاد پر کریں مفروضوں پر نہیں، صحافیوں کی ذمہ داری ہے کہ سچ بولیں، میں جج کی حیثیت سے نہیں کہہ رہا یہ بات۔

انہوں نے کہا کہ پہلے میں نے فل کورٹ میٹنگ کی، فل کورٹ تشکیل دیا گیا، اگلا اقدام میرا کتنے ڈیپیوٹیشنسٹ یہاں بیٹھے تھے سپریم کورٹ میں ان کو میں نے رخصت کیا، ان کا قانون کہتا ہے ڈیپیوٹیشنسٹ تین سال کے لیے آسکتا ہے، اس میں ایک سال کا اضافہ کیا جاسکتا ہے اس سے زیادہ نہیں، ان کے بیٹھے ہونے سے جو منفی نتیجہ نکلتا تھا وہ یہ تھا کہ سپریم کورٹ کے ملازمین کی اپنی ترقی رک جاتی تھی۔

اٹارنی جنرل کا فل کورٹ ریفرنس سے خطاب: 

اٹارنی جنرل منصور عثمان نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ سائلین کی امیدیں ٹوٹنے کی ذمہ داری نظام انصاف سے منسلک ہم تمام لوگوں پر عائد ہوتی ہے۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ نئے عدالتی سال کی تقریب ماضی سے سبق سیکھنے کا بھی ایک موقع ہوتا ہے،گزشتہ سال بھی کہا تھا جوڈیشل سسٹم میں اہم ترین وہ عام سائلین ہیں جو انصاف کیلئے رجوع کرتے ہیں،سائلین کی امیدیں ٹوٹنے کی ذمہ داری نظام انصاف سے منسلک ہم تمام لوگوں پر عائد ہوتی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہاکہ مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر سے زیادہ سائلین کو کوئی اور چیز ناامید نہیں کرتی،فوجداری مقدمات میں لوگوں کی آزادی اور زندگیاں داؤ پر لگی ہوتی ہیں،کئی مرتبہ ملزمان اور مجرمان کے مقدمات کی باری آنے میں دہائیاں لگ جاتی ہیں،بے گناہ کا دہائیوں تک جیل میں رہ کر رہ ا ہونا کسی سانحہ سے کم نہیں ہوتا۔

اٹارنی جنرل نے سزائے موت کے قیدیوں سے متعلق جسٹس جمال مندوخیل کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے فیسلے میں قیدیوں کے حالات کی بہترین عکاسی کی،۔

وائس چئیرمین پاکستان بار کونسل فاروق ایچ نائیک کا فل کورٹ ریفرنس سے خطاب

فاروق ایچ نائیک نے فل کورس ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 184/3 کے اسکوپ اور استعمال کے اثرات پر کافی سوالات اٹھے۔ سیاسی مقدمات میں توہین عدالت کا اختیار استعمال ہونے پر بحث نے طول پکڑا۔ بحث شروع ہوئی کہ جوڈیشل اتھارٹی اور اظہار رائے کی آزادی کے درمیان بھی توازن قائم ہونا چاہیے۔ نئے عدالتی سال پر عدلیہ کے اندرونی چیلنجز کو بھی دیکھنا ہو گا۔ 

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ نظام انصاف کی طاقت کا انحصار ججوں کے معیار پر ہے۔ قابل ترین ججز کو عدلیہ میں لانے کا پراسیس اپنانا ہو گا۔ میرٹ کی بنیاد پر ججوں کی بھرتی کیلئے سخت طریقہ کار اپنانا ہو گا۔ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان عدالتی اختیار نہیں رکھتا۔ پارلیمانی کمیٹی کا جوڈیشل کمیشن کے فیصلوں کے برعکس کوئی فیصلہ عدلیہ میں مداخلت نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ ماضی میں جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی میں ہم آہنگی رہی۔ 

فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ منیر بھٹی کیس کے فیصلے نے پارلیمانی کمیٹی کے اختیارات محدود کئے۔ پارلیمانی کمیٹی کے ارکان سمجھتے ہیں یہ فیصلہ ان کے اختیارات پر "انکروچمنٹ" ہے۔ منیر بھٹی فیصلے پر سپریم کورٹ کو نظرثانی کی ضرورت ہے۔ سوموٹو اختیارات کے استعمال کا طریقہ کار وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے طریقہ کار بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ رولز میں ترمیم کی ضرورت ہے۔

Watch Live Public News