ویب ڈیسک : آئی ایم ایف سے سب سے زیادہ قرض مسلم لیگ ن کے ادوار میں لیا گیا جو آئی ایم ایف کے پاکستان کے کُل قرض کا تقریبً 41 فیصد ہے۔
اردو نیوز کی رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف اور پاکستان کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور یہ رشتہ پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا،
ن لیگ کی حکومتوں کے دورن میں سب سے زیادہ قرض لیا گیا اسی طرح پیپلزپارٹی نے اپنے تمام ادوار میں کل قرض کا اڑتیس فیصد جبکہ فوجی حکومتوں نے اٹھارہ فیصد لیا۔
پاکستان پر اس وقت بیرونی قرضے مجموعی طور پر 131 ارب ڈالر سے زائد ہیں جن میں چین کا قرضہ سب سے زیادہ ہے۔
ایڈ انٹرنیشنل نامی ادارے کے مطابق یہ قرض تقریبا 79 ارب ڈالر ہے۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان کی بیرونی قرضوں کی رپورٹ کے مطابق 38 ارب ڈالر کے قرضے مختلف ممالک سے لیے گئے ہیں۔ ساڑھے سات ارب ڈالر آئی ایم ایف اور ساڑھے سات ارب ڈالر کے انٹرنیشنل بانڈز ہیں۔
ان 74 برسوں میں پاکستان آئی ایم ایف سے 22 مرتبہ قرض لے چکا ہے جبکہ اب لمبی مدت کے 23ویں قرض کے لیے حکومت پاکستان اور آئی ایم ایف میں مذاکرات چل رہے ہیں۔
پاکستان نے آئی ایم ایف سے پہلا قرض لینے کی درخواست 8 دسمبر 1958 کو یعنی قیام پاکستان کے گیارہ سال بعد کی تھی جس کے نتیجے میں 25000 ایس ڈی آر (سپیشل ڈرائنگ رائٹ آئی ایم ایف کرنسی جو ڈالر کے تقریباً برابر ہے) جاری کیے گئے۔
آج کی ڈالر کی قیمت کے مطابق یہ رقم پونے تین لاکھ ڈالر کے قریب بنتی ہے تاہم اس وقت کی پاکستان کی حکومت نے یہ قرضہ استعمال نہیں کیا تھا۔
آئی ایم ایف کی دستاویزات کے مطابق ہی پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا قرض پیپلزپارٹی کی حکومت نے 2008 میں لیا جس کی مالیت 7.6 ارب ڈالر تھی۔
آئی ایم ایف سے پاکستان نے دوسرا قرض 1965 کی جنگ کے دوران لیا جس کی مالیت 37500 ایس ڈی آر تھی۔
اقتصادی ماہرین کے مطابق پاکستان کا آئی ایم ایف پر انحصار 1965 اور 1971 کی جنگوں سے شروع ہوا اور اس کے بعد پہلا بڑا قرضہ پرویز مشرف اور پیپلزپارٹی 2008 کی حکومت میں لیا گیا۔
قرضوں کی ادائیگی کے نظام کے ساتھ ساتھ دیگر اقتصادی عشاریوں میں بہتری 2014 اور اس کے بعد دیکھی گئی تاہم اس دور میں بھی اصلاحات پر زیادہ کام نہیں ہوا اور پھر صورت حال دوبارہ سنبھل نہ سکی۔