جس پر ٹیکس لگاتے ہیں وہی شور مچانے لگتا ہے، وزیرخزانہ

جس پر ٹیکس لگاتے ہیں وہی شور مچانے لگتا ہے، وزیرخزانہ
کیپشن: He who is taxed is the one who starts making noise, Finance Minister

ویب ڈیسک: وفاقی وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہر کوئی چاہتا ہے کہ اس پر ٹیکس نہ لگے۔ جس پر ٹیکس لگاتے ہیں وہی شور مچانے لگتا ہے۔ ٹیکس آمدن بڑھانا آئی ایم ایف سے زیادہی پاکستان کی ضرورت ہے۔ 

نوید قمر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس منعقد ہوا۔ وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب بھی اجلاس میں شریک ہوئے۔ وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک بھی اجلاس میں موجود تھے۔ 

سید نوید قمر نے سوال کیا کہ معیشت پر پوری صورتحال سے آگاہی چاہتے ہیں۔ وزیرخزانہ نے جواب دیا کہ گزشتہ مالی سال معیشت کی بہتری پر اختتام پزیر ہوا۔ گزشتہ مالی سال مہنگائی کی شرح کم ہوئی۔ امپورٹس اور ڈیوڈنڈز کی تمام ادائیگیاں کر دی گئی ہیں۔عالمی بینک نے  داسو ڈیم پر ایک ارب ڈالر فراہم کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔ امپورٹرز کے لیے ایل سی کھولنے کی مشکلات ختم کردی گئی ہیں۔ 2023 میں پروگرام میں تاخیر کی وجہ سے کرنسی متاثر ہوئی۔

وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام میں میکرو استحکام آیا ہے۔ اس وقت کوئی ایسی چیز نہیں جسے مصنوعی طور پر دبا دیا ہو۔ ایسا نہیں ہوگا کہ روپیہ 300 یا 350 پر چلا جائے، کرنسی سٹیبل رہے گی۔ ہمیں ٹیکس اتھارٹی پر اعتماد بحال کرنا ہے۔ اس کے لیے ایف بی آر کو مکمل ڈیجیٹائز کرنا ضروری ہے۔ وزیر اعظم کی ہدایت ہر ہم اس پر تیزی سے کام کر رہے ہیں۔

محمد اورنگزیب کا مزید کہنا تھا کہ اسٹاک ایکسچینج میں بھی تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس وقت ملک کے مجموعی معاشی اشاریے مثبت ہیں۔ نگران حکومت کے دوران انتظامی اقدامات کیے گئے تھے۔ ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح 9 فیصد کے ساتھ ملک نہیں چل سکتا۔ ہم اس شرح کو بڑھا کر 13 فیصد کریں گے۔ سارے شعبے ملک کی معاشی صورتحال کو بہتر ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ تاہم کوئی خود کو پہلے مشکل صورتحال میں ڈالنا نہیں چاہتا۔ جون تک 52 ارب کے روپے کے ریفنڈز جاری کیے ہیں۔ ایف بی آر کی مجموعی ری اسٹرکچرنگ پر کام ہو رہا ہے۔ 

چیئرمین کمیٹی نے سوال کیا کہ آپ کا کتنا ایڈوانس ٹیکس ہے؟  ایڈوانس ٹیکس کبھی بجلی کے بل پر آجاتا ہے کبھی کسی اور چیز پر۔ وزیرخزانہ نے کہا کہ پی ایس ڈی پی میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کا عنصر بڑھا رہے ہیں۔ نئے بھرتی ہونے والی سرکاری ملازمین پر نیا پنشن سسٹم لاگو ہوگا۔ اس سال جولائی سے ڈیفائن کنٹریبیوشن سسٹم لاگو ہو رہا ہے۔

چیئرمین کمیٹی نے پوچھا کہ پانچ وزارتوں کو بند کرنے سے کتنا فسکل سپیس بچے گا۔ پی ڈبلیو ڈی کو بند کرکے اسے ہاؤسنگ میں ڈال دیا گیا۔

وزیرخزانہ نے کہا کہ پی ڈبلیو ڈی کو بند کرنے کے پیچھے بڑی وجہ کرپشن ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ ہم درست سمت پر گامزن ہیں۔ ہماری سٹاف لیول معاہدے کی طرف مثبت پیشرفت ہے۔ 

رکن کمیٹی شہرام ترکئی نے کہا کہ بجلی کے بل پر 5 قسم کے ٹیکسز پر وضاحت ضروری ہے۔ چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ سیلز ٹیکس گڈز پر لگتا ہے، بجلی بھی گڈز میں آتی ہے۔ پھر بجلی بلوں میں فائلرز اور نان فائلرز پر الگ الگ ٹیکسز ہیں۔ وزیرخزانہ نے بتایا کہ ایل سیز پر کسی قسم کی کوئی قدغن نہیں ہے۔ ڈالر کے ایکس چینج ریٹ پر سٹہ بازی ختم کردی ہے۔ چاروں صوبائی وزرائے اعلی نے زراعت پر انکم ٹیکس کی یقین دہانی کرائی۔ صوبوں میں زرعی شعبے سے ٹیکس آمدن مرحلہ وار بڑھائی جائے گی۔ ریئل اسٹیٹ سے ٹیکس آمدن بڑھانے کے لیے بجٹ میں اقدامات کیے ہیں۔ ہر کوئی یہی چاہتا ہے کہ اس پر ٹیکس نہ لگایا جائے۔ جس پر ٹیکس لگاتے ہیں وہی شور مچانا شروع کردیا ہے۔ 

وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ ٹیکس لگاتے ہیں تو میڈیا میں اس کے خلاف  اشتہارات دیئے جارہے ہیں۔ ٹیکس لگانے پر میڈیا کے اشتہارات میں جو شور مچا ہے، وہ  مانیٹر کرتا ہوں۔ ٹیکس لگانے پر ہر شعبے کی مشکلات سے آگاہ ہیں۔ ٹیکس بڑھانے کے لیے آئی ایم ایف کی سخت شرائط ہیں۔ ٹیکس آمدن بڑھانا آئی ایم ایف سے زیادہ پاکستان کی ضرورت ہے۔

Watch Live Public News