ویب ڈیسک:(سلیمان اعوان) لاہور ہائیکورٹ نے تدارک سموگ کے حوالے سے پنجاب حکومت کی کارکردگی پر ناراضی کا اظہار کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے تدارک سموگ سے متعلق درخواستوں پر سماعت کی، پنجاب حکومت نے تدارک سموگ سے متعلق اقدامات کی رپورٹ عدالت میں پیش کی۔
دوران سماعت وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ لاری اڈوں اور ٹرک سٹینڈز پر انتظامیہ خود جا کے انسپکشن کرے گی، بند روڈ پر تین بڑے ٹرمینلز پر کریک ڈاؤن کیا گیا، 400 گاڑیوں کو چیک کیا گیا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ 400 گاڑیوں کی انسپکشن کے نتیجےمیں کتنی گاڑیاں ٹھیک حالت میں نہیں تھیں؟
وکیل پنجاب حکومت نے بتایا کہ 42 گاڑیاں انسپکشن میں فیل ہوئی ہیں، پنجاب کے تمام ڈپٹی کمشنرز کو انسپکشن کے لیے مطلع کر دیا گیا ہے، کل اتوار تھا اس لیے سیکرٹری ٹرانسپورٹ ہدایات جاری نہیں کر سکے۔
عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ یہ آپ کیا بات کررہے ہیں؟ حالت دیکھیں باہر، ایک ایک منٹ بہت ضروری ہے،میں تو اتوار کو بھی اس کیس کوسننے کو تیار ہوں، اگر آپ کہتے تو میں اتوار والے دن کیس کی سماعت رکھ لیتاہوں۔
ممبر جوڈیشل کمیشن نے کہا کہ سموگ پھیلانے والی گاڑیاں سڑکوں پر آنی ہی نہیں چاہئیں۔
عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب، ٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنٹ کا کوئی بندہ عدالت میں موجود نہیں، یہ آپ کی سنجیدگی کا عالم ہے۔
عدالت نے ممبر جوڈیشل کمیشن کو حکم دیا کہ آپ بادامی باغ جائیں اور بند کی گئی گاڑیوں کو چیک کریں، کیا ٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنٹ اب تک سویا ہوا تھا؟ ہم گزشتہ 2 سال سے آرڈر کر رہے ہیں، حکومتی اداروں کی جانب سے مکمل ناکامی ہے، میں 6 ماہ پہلے سے یہ کہہ رہا ہوں اسموگ آنے سے پہلے تدابیر کریں، اگر سموگ آ گئی پھر کچھ نہیں ہو پائے گا۔
جسٹس شاہد کریم نے پنجاب حکومت کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس میں کہا کہ سموگ کے اس سیزن میں ذمہ دار شہر میں موجود نہیں ہیں، میں تفصیل میں جانا نہیں چاہتا، جب عدالت میں حکومت کی بائیکس فراہم کرنے کی پالیسی پر آرڈر کیا تو حکومت کے لوگوں نے ہنسنے والے ریمارکس دیے، کیا اب کوئی جواب ہے آپ لوگوں کے پاس؟
عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب آج عدالت میں موجود نہیں ہیں، یہ سب سے اہم معاملہ ہے، آج انہیں عدالت میں ہونا چاہیے تھا، میں بہت مایوس ہوا ہوں، آپ ان تک میری ناراضی پہنچائیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ بس سٹینڈ پر گاڑیوں کو چیک کرنے کا طریقہ کار کیا ہے؟
وکیل پنجاب حکومت نے بتایا کہ گاڑیوں کا دھواں چیک کیا جاتا ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہ اس طرح حکومت معاملے کو سیریس لے رہی ہے؟ اسموگ کنٹرول کرنے کے حوالے سے اقدامات کرنے میں حکومتی محکمے ناکام ہیں۔
جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیئے کہ 2 ماہ پہلے اسموگ کی صورتحال ابتر ہو چکی ہے، یہ بچوں سمیت ہم سب کی زندگیوں کا معاملہ ہے لیکن ادارے پراپر کردار ادا نہیں کر رہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ چیف سیکرٹری پنجاب کہاں ہیں ؟
ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے عدالت کو بتایا کہ وہ جنیوا میں ہیں۔
جسٹس شاہد کریم نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایکٹنگ چیف سیکرٹری کہاں ہیں؟ یہ صوبہ چل کیسے رہا ہے؟
جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ لاہور میں بہت سی جگہوں پر تعمیرات ہو رہی ہیں، تعمیرات کا ہونا سموگ کی سب سے بڑی وجہ ہے، سکول بند کروا دیے ہیں، تعمیرات ہی بند کروا دیتے، کیا کوئی آرڈر موجود ہے کہ ڈپٹی کمشنر کیا کام کریں گے ؟
وکیل پنجاب حکومت نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کے حوالے سے ایسا کوئی آرڈر موجود نہیں ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ فصلوں کی باقیات جلائی جا رہی ہیں، کیا حکومت کو نہیں معلوم تھا کہ چاول کی فصل کے بعد فصلوں کی باقیات جلائی جائیں گی؟ حکومت نے کیا اقدامات کیے؟ حکومت نے کچھ نہیں کیا، روڈا کو چھوڑ دیں، اگر روڈا بنائیں گے تو کون اس شہر میں رہے گا، اگر لاہور کا ماسٹر پلان کالعدم قرار نہ دیا جاتا تو معلوم نہیں کیا ہو جانا تھا۔
جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس میں کہا کہ عدالت نے کوئی حکم نہیں دیا کہ مارکیٹس 8 بجے بند کی جائیں، میں نے یہ آپ لوگوں پر چھوڑ رکھا ہے کہ آپ میٹنگ کریں اور جو مناسب ہے کریں، ہم نے کہا تھا کہ ہفتے میں 2 دن ورک فرام ہوم کریں، کب کریں گے؟آپ لوگ کر کیا رہے ہیں؟ یہ ڈی جی ماحولیات سے بہت اوپر کی بات ہے، پوری حکومتی مشینری کو اس پر ایکشن لینا ہوگا، تدارک سموگ کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں ہوئے۔
عدالت نے وکیل پنجاب حکومت سے استفسار کیا کہ آرڈر کیا تھا ان دو ماہ میں کوئی تعمیراتی کام نہیں ہو گا اس پر عملدرآمد کیوں نہیں ہو رہا؟ اسکول بند ہیں، سب کچھ سامنے ہے کنسٹرکشن کیوں بند نہیں ہو رہی؟ اس وقت پنجاب میں ایمرجنسی ہے آپ کو اندازہ ہی نہیں ہے۔
جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیئے کہ درختوں کی کٹائی کی وجہ سے ملتان سموگ میں پہلے نمبر پر آ چکا ہے، 2 دن " ورک فرام ہوم" کے حوالے سے بھی حکومت کو اقدامات کرنے کا کہا تھالیکن کچھ نہیں کیا گیا، میں خود کل باہر نکلا ہوں مجھے ٹریفک والا ایک بندہ بھی نظر نہیں آیا جو چیکنگ کر رہا ہو۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا حکومت نے کوئی نوٹیفکیشن جاری کیا ہے کہ اگر گاڑی کی فٹس پراپر نہیں ہے تو اسے ایک لاکھ جرمانہ ہو گا؟ 1500 یا 2000 جرمانے سے حالات نہیں بدلیں گے، جو ضروری اقدامات ہیں اور نوٹیفکیشن ہیں وہ حکومت کرے، کنسٹرکشن بند کرنے کے لیے حکومت سنجیدگی سے سوچے۔
جسٹس شاہد کریم نے استفسار کیا کہ میں نے شادی ہالز کے حوالے سے آرڈر کیا تھا، اس کا کیا بنا؟
ممبر جوڈیشل کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ اس پر کچھ عملدرآمد نہیں ہوا۔
جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ میں پر امید تھا موجودہ حکومت اس حوالے سے بہتر کام کرے گے مگر ان کے اقدامات کافی نہیں، میں کوئی آرڈر نہیں کر رہا، میں صرف یہ دیکھنا چاہتا ہوں حکومت کیا کرتی ہے، آپ کو جاری تعمیرات کے حوالے سے فیصلہ کرنا ہوگا، حکومت پنجاب بھر کے ڈی سیز اور اے سیز کی ڈیوٹی لگائے کبھی اپنے دفاتر سے نکل کر سڑکوں پر چیکنگ کریں۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ریسٹورانٹ کے حوالے سے بھی آپ دیکھیں اس حوالے سے بھی رپورٹ جمع کروائیں۔بعد ازاں عدالت نے اسموگ کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔