(ویب ڈیسک ) جے یو آئی کی جانب سے اپنا مجوزہ ڈرافٹ خصوصی کمیٹی میں پیش کر دیا گیا ہے۔
تفصیلا ت کے مطابق پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے مشترکہ ڈرافٹ پر اہم اجلاس اب سے کچھ دیر بعد زرداری ہاؤس میں ہو گا۔ شیری رحمان ، نوید قمر سینیٹر کامران مرتضیٰ کے ساتھ زرداری ہاؤس روانہ ہوگئے۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور ہمارے ڈرافٹ میں صرف آئینی عدالت اور بینچ کا فرق ہے۔پیپلز پارٹی کے باقی ڈرافٹ پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ امید ہے جلد ہم دونوں جماعتیں کچھ دیر میں ایک مشترکہ ڈرافٹ پر اتفاق کر لیں گے۔
ذیلی کمیٹی تشکیل:
خصوصی کمیٹی کا اجلاس ختم ہوگیا ہے۔ خصوصی کمیٹی نے اتفاق رائے کے لئے ذیلی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ خصوصی کمیٹی کا اجلاس اب نہیں ہو گا، مسودوں پر اتفاق رائے کے لئے ذیلی کمیٹی کا اجلاس کسی بھی وقت طلب کیاجا سکے گا۔
ذرائع کے مطابق ذیلی کمیٹی میں خصوصی دعوت کے ذریعے کوئی بھی رکن شامل ہو سکے گا،حتمی مسودوں پر مشاورت اب ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں کی جائے گی۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا بیان:
اجلاس میں شرکت سے قبل میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اس طرح کے معاملات میں گفت و شنید سے بات آگے بڑھتی ہے، کون سا ایسا مسئلہ ہے جس کا حل نہیں۔
انہوں نے کہاکہ ایک ماہ سے اس مسئلے پر عوام میں بحث چل رہی ہے، اس میں کون سی غیرآئینی چیز ہے؟ اپوزیشن کے دوستوں سے کہوں گا اپنی تجاویز بھی دیں، صرف تنقید سے معاملات حل نہیں ہوں گے۔
راجہ پرویز اشرف کا بیان :
پیپلزپارٹی کے رہنما اور سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے اجلاس کے موقع پر میڈیا سے گفتگو میں کہاکہ مذاکرات درست سمت کی طرف جا رہےہیں، مولانا صاحب نے گزشتہ روز بہت اچھی بات کی ہے، مولانا صاحب نے کہا ہےکہ ایک متفقہ ڈرافٹ دیں گے۔
سینیٹر شیری رحمن کا بیان :
پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،کمیٹی کا اجلاس ان کیمرہ ہے، قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی آئینی عدالت کو ترجیح سمجھا،یہ آئینی ترمیم عدالت پر حملہ ہر گز نہیں ہے۔
انہوں نے کہاکہ ججز کی تعیناتی پر مختلف ممالک میں مختلف طریقہ کار ہیں، کہیں ایسا نہیں کہ سنیارٹی کی بنیاد پر ججز تعینات ہوں، سنیارٹی کی بنیاد پر تعیناتیوں سے ڈیم فنڈز ہی بنے ہیں۔
شیری رحمٰن نے مزید کہاکہ پیپلز پارٹی واحد جماعت ہے جس نے آئینی ترمیمی ڈرافٹ جمع کرایا ہے، اتفاق رائے پیدا کرنا پاکستان پیپلز پارٹی کی خصوصیت ہے، پیپلز پارٹی قومی سلامتی پالیسی پر بھی اتفاق رائے پیدا کرتی ہے۔
انہوں نے کہاکہ سیاست میں باہمی مفادات کی بنیاد پر بات ہوتی ہے، کوئی چیز پرفیکٹ نہیں ہوتی، آئینی ترمیم بھی پرفیکٹ نہیں ہو گی، آئینی ترمیم میں شفافیت لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ کا بیان :
اس موقع پر جمعیت علمائے اسلام ( ف) کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے صحافیوں سے گفتگو میں کہاکہ جمیعت علمائے اسلام نے بھی اپنا ڈرافٹ جمع کرایا ہے۔
فاروق ستار کا بیان :
ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما فاروق ستار نے اپنی گفتگو میں کہاکہ ہم نے آئینی ترمیم کا مسودہ نہیں دیکھا، ن لیگ ، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف تینوں جماعتیں ضرورت کے تحت اصلاحتی ایجنڈے کی مخالفت یا حمایت کرتی ہیں۔
انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی عدالتی اصلاحت سے متعلق ماضی میں حق میں تھی، آج مخالف اس لیے کررہی کہ سیاسی مفادات کو نقصان پہنچ رہا، اصول کہاں ہیں ہم تو اصولوں کو ڈھونڈ رہے ہیں۔
واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت گزشتہ ماہ سے ایک اہم آئینی ترمیم کی منظوری کو یقینی بنانے کے لیے کوششیں کر رہی ہے، 16 ستمبر کو آئین میں 26ویں ترمیم کے حوالے سے اتفاق رائے نہ ہونے اور حکومت کو درکار دو تہائی اکثریت حاصل نہ ہونے پر قومی اسمبلی کا اجلاس غیرمعینہ مدت تک ملتوی کردیا گیا تھا۔
کئی دن کی کوششوں کے باوجود بھی آئینی پیکج پر اپوزیشن بالخصوص مولانا فضل الرحمٰن کو منانے میں ناکامی کے بعد ترمیم کی منظوری غیر معینہ مدت تک مؤخر کر دی گئی تھی۔
مجوزہ آئینی ترمیمی بل کا مسودہ سامنے آگیا تھا، جس میں مجموعی طور پر 54 تجاویز شامل ہیں تاہم بل میں چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں اضافے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے البتہ نئے چیف جسٹس کی تقرری کا طریقہ کار تبدیل کیا جائے گا۔
نجی ٹی وی کی جانب سے مجوزہ آئینی ترامیم کے مندرجہ جات کی تفصیلات حاصل کرلی ہیں، مجوزہ آئینی ترامیم میں 54 تجاویز شامل ہیں، آئین کی63،51،175،187، اور دیگر میں ترامیم کی جائیں گی۔
ذرائع کے مطابق بلوچستان اسمبلی کی نمائندگی میں اضافےکی ترمیم بھی مجوزہ آئینی ترامیم میں شامل ہے، بلوچستان اسمبلی کی سیٹیں 65 سے بڑھاکر 81 کرنےکی تجویز شامل کی گئی ہے۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ آئین کے آرٹیکل63 میں ترمیم کی جائیں گی، منحرف اراکین کے ووٹ سے متعلق آرٹیکل 63 میں ترمیم بھی شامل ہے، آئینی عدالت کے فیصلے پر اپیل آئینی عدالت میں سنی جائےگی۔
اس کے علاوہ آئین کے آرٹیکل 181 میں بھی ترمیم کیے جانےکا امکان ہے، چیف جسٹس کی مدت ملازمت نہیں بڑھائی جائےگی، اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کو دوسرے صوبوں کی ہائیکورٹس میں بھیجا جاسکےگا۔
ذرائع نے مزید بتایا تھا کہ چیف جسٹس پاکستان کا تقرر سپریم کورٹ کے 5 سینئر ججز کے پینل سے ہوگا، حکومت سپریم کورٹ کے 5 سینئر ججز میں سے چیف جسٹس لگائےگی۔