پاکستان کے بعدایران سے بھی ہزاروں کی تعداد میں افغان بچوں کی ملک بدری

کیپشن: پاکستان کے بعدایران سے بھی ہزاروں کی تعداد میں افغان بچوں کی ملک بدری

پبلک نیوز: پاکستان کے بعد ایران سے ہزاروں کی تعداد میں افغان بچوں کو ملک بدر کیا گیا۔

تفصیلات کے مطابق افغان طالبان کے 2021 میں قبضے کے بعد سے جہاں بالغ افراد کی بڑی تعداد مسائل کا شکار ہو چکی ہے وہاں بچے بھی اس سے محفوظ نہیں رہے،صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دیگر پڑوسی ممالک جن میں ایران شامل ہے نے بھی غیر قانونی افغان شہریوں کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

افغانستان کے نشریاتی ادارے طلوع نیوز کے مطابق  افغانستان کے صوبے نمروز کے مقامی حکام کے مطابق گزشتہ برس بیس ہزار سے زائد افغان بچوں کو ایران سے ملک بدر کیا گیا،سال 2024 میں 900 سے زائد افغان بچوں کو ایرانی حکام کی جانب سے زبردستی ملک بدر کیا گیا۔ 

حکام کےمطابق یہ بچے اکیلے ہی وطن واپس آئے اور غربت کی وجہ سے غیر قانونی طریقے سے ایران گئے تھے۔

نمروز ڈائریکٹوریٹ آف ریفیوجیز کے سرحدی کمانڈر محمد ہارون کا کہنا ہے کہ ایران سے روزانہ تقریباً تیس سے چالیس لاوارث بچے نمروز واپس آتے ہیں، گزشستہ سال بے دخل کیے گئے بیس ہزار بچے ہمارے پاس رجسٹرڈ ہوئے۔

ایران سے ملک بدر کئے جانے والے ایک افغان بچے کا کہنا تھا کہ افغانستان میں معاشی مسائل سے تنگ آکر ایران گیا، جہاں ایک بیکری پر کام کرتا تھا دو چار روٹیاں روز کی مل جاتی تھیں مگر پولیس نے مجھے اہلخانہ کے بغیر ملک بدر کردیا۔

ایران سے جن افغان   بچوں کو ملک بدر کیا گیا ہے ان میں سے اکثریت کا کہنا ہے کہ ہمارے والدین ایران میں ہی ہیں اور اب ہمارا افغانستان میں کوئی بھی نہیں ہے۔

ملک بدر ہونے والے ایک اور بچے کا کہنا تھا کہ ہم اقتصادی مسائل کی وجہ سے ایران گئے، ہمارے پاس پیسے نہیں تھے، ہم کام کرنے پر مجبور تھے۔

افغانستان کےپڑوسی ممالک نے طویل عرصے تک افغان مہاجرین کی میزبانی کی ہے مگر اب دنیا کے بدلتے معاشی چیلنجز کے پیش نظر انہیں غیر قانونی افغان باشندوں کی ملک بدری کا سخت فیصلہ کرنا پڑا ہے، افغان طالبان کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے بچے چائلڈ لیبر اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہو رہے ہیں۔

افغان طالبان کو خطے میں دہشتگردی کو فروغ دینے  کی بجائے اپنے ملک بالخصوص بچوں کے مستقبل کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے،حالات کو دیکھتے ہوئے افغان طالبان کو اپنے ملک کے معاشی و دیگر مسائل پر توجہ دینی چاہئے تاکہ افغان بچے اپنی زندگیاں سنوار کر کسی قابل ہو سکیں۔

اقوام متحدہ اور یورپی یونین کو ان سنگین مسائل سے دو چار افغان مہاجر بچوں اور افغان طالبان کی غیر قانونی سرگرمیوں کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہیے۔