ویب ڈیسک: جج کو ہراساں کرنے کے کیس میں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے آئی جی پنجاب سمیت دیگر فریقین کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ میں جج کو ہراساں کرنے پر آئی ایس آئی کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی
ہائیکورٹ میں سیکٹر کمانڈر آئی ایس آئی کی جانب سے انسداد دہشت گردی عدالت سرگودھا کے جج کو ہراساں کرنے کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی۔
آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور اور آر پی او سرگودھا عدالت میں پیش ہوئے۔
آئی جی نے بتایا کہ عدالت کے باہر فائرنگ ہوئی، جج صاحب کے حکم پر ہم نے انکوائری کروائی، ہمیں سب سے پہلے عدالت کے علاقے کی جیو فینسنگ کروانی ہوگی مگر ڈیٹا کا مسئلہ ہے، سی ڈی آر نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹیلیفون کمپنیوں کو حکم دیا ہے کہ وہ کسی کو موبائل ڈیٹا نہیں دیں گی، ہماری وزرات داخلہ اور وزارت داخلہ کے ساتھ فوری طور پر ایک کمیٹی بنائی جائے۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ان سے کہا کہ اگر جیو فینسنگ کی اجازت نہیں ملتی تو آپ بندے کو گرفتار نہیں کریں گے؟ بہاولپور میں جج صاحب کے گھر کے باہر جو میٹر توڑا گیا، اس کی کیا معلومات ہیں ؟ جج محمد عباس ہمارے بہت اچھے جوڈیشل افسر ہیں جنہوں نے کہا کہ آئی ایس آئی کے بندے کے ملنے کا پیغام پہنچایا گیا، کیا آپ نے وہ بندہ ڈھونڈا ہے جو جج صاحب سے ملنا چاہتا تھا ؟ میرا سوال یہ ہے کہ آئی ایس آئی کے کس بندے نے پیغام پہنچایا؟
آئی جی پنجاب نے جواب دیا کہ میں نے متعلقہ افسروں سے اس حوالے سے پوچھا انہوں نے صاف انکار کر دیا، میں نے اس حوالے سے پتا کروایا ہے، ہمیں ایسی کوئی رپورٹ نہیں ملی، جج صاحب کا خیال ہے کہ انٹیلیجنس ایجنسی کے بندوں نے ان کا میٹر توڑا۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے پوچھا کہ آپ نے کس قانون کے تحت وکلا اور سائلین کو اے ٹی سی عدالت جانے سے روکا؟
آئی جی پنجاب نے جواب دیا کہ اس حوالے سے خاص خطرہ تھا، اس لیے بند کیا گیا۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ پھر پورے پاکستان کی عدالتوں کو بند کر دیں، سارے پاکستان میں ہی تھریٹ الرٹ ہے، آپ مجھے کوئی قانون بتا دیں کہ کس قانون کے تحت عدالت میں جانے سے روکا گیا ؟
آئی جی پنجاب نے جواب دیا کہ ہم نے دفعہ 144 نافذ کی تاکہ لوگ اکٹھے نہ ہوں۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے استفسار کیا کہ ہم لوگوں کے اکٹھے ہونے کی بات نہیں کر رہے، عدالت میں جانے سے کیوں روکا ؟ آپ پھر کرفیو نافذ کر دیں۔
آئی جی نے رپورٹ عدالت میں جمع کرواتے ہوئے کہا کہ یہ بہت حساس نوعیت کی رپورٹ ہے جو صرف آپ کے لیے ہے، سرگودھا عدالت میں جانے والے تمام راستے بند کردیے گئے تھے، کچھ سیکیورٹی تھریٹس ہیں، اس پر کام جاری ہے۔
ڈی پی او سرگودھا نے کہا کہ ہمیں اس حوالے سے تھریٹ الرٹ ملا تھا، ہم نے جج صاحب کو کام سے نہیں روکا۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ آپ نے وکلا اور سائلین کو عدالت میں گھسنے نہیں دیا، اور کام سے روکنا کیا ہوتا ہے؟ جج صاحب اپنے کام سے نہیں رکے، انہوں نے خط میں بھی لکھا ہے کہ وہ ڈرنے والے نہیں، جو کام انہوں نے کرنا تھا، آپ نے اس کام سے انہیں روکا، آپ کا حساب تو انہوں نے لینا ہے جنہیں آپ خوش کر رہے ہیں، آئی جی صاحب، برائے کرم عدالت کا مذاق نہ بنائیں، کور کمانڈر کے گھر حملہ ہوا، اس پر عدالتوں نے فیصلے کرنے ہیں، صوبے کی سب سے بڑی عدالت پر حملہ ہو تو آپ نے کسی کو مقدمے میں نامزد نہیں کیا، جو جج پسند نہ ہو اس کے خلاف بیان بازی شروع کر دیتے ہیں، اس ملک میں دوہرا معیار ہے، اس کے خلاف سوشل میڈیا پر پروگرام چلوائے جاتے ہیں۔
جج کا خط
اے ٹی سی سرگودھا کے جج نے آئی ایس آئی کی جانب سے ہراساں کرنے اور عدالت کے باہر فائرنگ پر لاہور ہائیکورٹ کو خط میں کہا ہے کہ مجھے پیغام پہنچایا گیا کہ آئی ایس آئی کے کچھ لوگ آپ سے ملنا چاہتے ہیں، میرے انکار کرنے پر کچھ لوگوں نے میرے گھر کے باہر لگے گیس کے میٹر کو توڑ دیا، مجھے واپڈا کی جانب سے بجلی کا بھاری بھرکم بل بھیج دیا گیا، بجلی کا بل بظاہر نقلی لگتا ہے اور شائد ایجنسی کے اہلکاروں اور واپڈا کی ملی بھگت سے بھیجا گیا ہے، پولیس نے 9 مئی کے کیسز کی سماعت کے دن عدالت کی جانب جانے والے رستے بند کر دیے، عدالت کے باہر لگے ٹرانسفارمر پر فائرنگ کی گئی۔
خط میں کہا گیا کہ 9مئی کے کیسز کے ملزمان کے کیس کے فیصلے کے روز عدالت کا تھریٹ الرٹ کے نام پر گھیراؤ کیا گیا، اس روز نا کوئی بندہ اندر جاسکا اور نا کوئی باہر آسکا، حتی کے ملزمان بھی عدالت کے روبرو پیش نا ہوسکے تاہم جج میرٹ پر فیصلہ دے کر اٹھے۔