(ویب ڈیسک ) جرمن چانسلر اولاف شولس نے مخلوط حکومتی اتحاد کے ٹوٹنے کے بعد پارلیمان سے اعتماد کا ووٹ طلب کیا تھا، ان کی ناکامی کے بعد ملک میں فروری میں قبل از وقت عام انتخابات کی راہ پوری طرح ہموار ہو گئی ہے۔
جرمن چانسلر اولاف شولس کو بنڈس ٹاگ کہلانے والے وفاقی پارلیمان کے ایوان زیریں سے آج سولہ دسمبر بروز پیر اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
خیال رہے کہ شولس نے مخلوط حکومتی اتحاد کے ٹوٹ جانے کے بعد وفاقی پارلیمان سے اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کیا تھا۔
جرمن چانسلر کی پارلیمان سے اعتماد کا یہ ووٹ حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد جرمنی میں آئندہ سال فروری میں نئے عام انتخابات کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔
تقریباً 394 قانون سازوں نے حکومت کے خلاف جبکہ 207 نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔
اس دوران پارلیمان کے ایوان زیریں میں 116 اراکین غیر حاضر رہے، جس سے شولس کو جیتنے کے لیے درکار 367 ووٹوں کی اکثریت حاصل نہ ہو سکی۔
واضح رہے کہ اعتماد کے ووٹ کا مطالبہ بجٹ پر تنازعات کے بعد فری ڈیموکریٹک پارٹی (ایف ڈی پی) نےشولس کی سینٹر لیفٹ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) اور گرینز کے ساتھ مل کر بنائی گئی مخلوط حکومت چھوڑنے کے بعد کیا تھا۔
اب صدر فرانک والٹر اشٹائن مائر کے پاس پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کا فیصلہ کرنے کے لیے مزید 21 دن کا وقت ہو گا۔
اعتماد کا ووٹ کیوں لینا پڑا؟
چانسلر اولاف شولس نے اپنی حکومت کی اتحادی جماعت فری ڈیموکریٹک پارٹی (ایف ڈی پی) کے رہنما اور وزیر خزانہ کرسٹیان لِنڈنر کو برطرف کر دیا تھا اور اس کے بعد اس پارٹی نے حکومت سے اپنی حمایت واپس لے لی تھی۔
اس وقت سے چانسلر اولاف شولس کی حکومت پارلیمان میں اقلیت میں تھی اور انہوں نے اسی پس منظر میں اعتماد کے ووٹ کے لیے درخواست دی تھی۔
مخلوط حکومت کا خاتمہ ایس ڈی پی اور ایف ڈی پی کے درمیان کئی مہینوں کے تنازعے کے بعد سامنے آیا تھا۔
واضح رہے کہ چانسلر شولس اور وزیر خزانہ لِنڈنر کے درمیان آئندہ وفاقی بجٹ اور اقتصادی پالیسیوں کے حوالے سے کافی اختلاف تھے۔