جوبائیڈن اور سعودی ولی عہد کے درمیان 'مشکل سوال و جواب'

جوبائیڈن اور سعودی ولی عہد کے درمیان 'مشکل سوال و جواب'
امریکی صدر جوبائیڈن کا کہنا ہے کہ انہوں نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کے دوران صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا معاملہ اٹھایا ہے۔ جمال خاشقجی کے قتل پر امریکا کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالات سعودی شاہی خاندان کے لیے بے چینی کا باعث ہیں۔ جوبائیڈن، جنہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران انسانی حقوق کے خراب ریکارڈ کی وجہ سے سعودی عرب کو تنہا کرنے کا عزم کیا تھا، اب تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے سعودی عرب پہنچ گئے ہیں۔ جوبائیڈن کی ولی عہد سے ملاقات تقریباً تین گھنٹے جاری رہی جس میں کئی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 2018 میں صحافی جمال خاشقجی کا قتل ان کے اور امریکا کے لیے بہت اہم ہے، تاہم انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک دیگر معاملات پر معاہدے پر پہنچ چکے ہیں۔ جمال خاشقجی کو ترکی میں سعودی عرب کے قونصل خانے میں قتل کیا گیا تھا۔ وہ سعودی ولی عہد کے بڑے ناقد سمجھے جاتے تھے۔ ایسے میں جوبائیڈن کے دورہ سعودی عرب کو لے کر کافی تنقید کی جا رہی ہے۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پر امریکی خفیہ ایجنسیوں نے قتل کا الزام لگایا تھا۔ انہوں نے ہمیشہ ان الزامات کی تردید کی ہے اور کچھ سعودی ایجنٹوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ جمعے کے روز ولی عہد سے ملاقات کے بعد ایک پریس کانفرنس میں جوبائیڈن نے کہا: "اس ملاقات میں میں نے خاشقجی کے قتل کے معاملے کو نمایاں طور پر اٹھایا اور واضح کیا کہ میں نے اس وقت اور اب اس کے بارے میں کیا سوچا ہے۔ میرا کیا خیال ہے" جوبائیڈن نے کہا، "میں نے یہ بہت واضح طور پر کہا ہے۔ انسانی حقوق پر ایک امریکی صدر کی خاموشی اس بات کی تردید کرتی ہے کہ ہم کون ہیں اور میں کون ہوں۔ میں ہمیشہ اپنی اقدار کے لیے کھڑا رہوں گا۔" خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق جوبائیڈن نے کہا کہ ولی عہد نے دعویٰ کیا کہ وہ خاشقجی کی موت کے لیے ذاتی طور پر ذمہ دار نہیں ہیں۔ ولی عہد نے خاشقجی کے قتل پر کیا کہا؟ العربیہ نیوز ویب سائٹ کے مطابق جوبائیڈن سے ملاقات کے دوران ولی عہد نے کہا کہ سعودی شہری جمال خاشقجی کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ 'افسوسناک' ہے۔ ولی عہد نے کہا کہ سعودی عرب نے خاشقجی کیس میں تحقیقات سے لے کر ٹرائل اور سزا کے نفاذ تک تمام قانونی طریقہ کار پر عمل کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان کے ملک نے ایسے اصول و ضوابط بنائے ہیں جو مستقبل میں ایسی غلطیوں کو ہونے سے روکتے ہیں۔ ملاقات کے دوران ولی عہد نے کہا کہ ایسے واقعات دنیا میں کہیں بھی ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سال 2018 میں جب خاشقجی کو قتل کیا گیا، اسی سال کئی مقامات پر صحافیوں کو قتل کیا گیا۔ العربیہ کے مطابق ایک اہلکار نے بتایا کہ ولی عہد نے اجلاس میں عراق میں ابو غریب اور دیگر کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ امریکا سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں۔ بائیڈن سے ملاقات کے دوران ولی عہد نے امریکی صحافی شیریں ابو اکلیح کے قتل کا بھی حوالہ دیا اور پوچھا کہ امریکا اور دیگر ممالک نے اس حوالے سے کیا کیا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے صحافیوں نے جمال خاشقجی کے قتل کے بارے میں براہ راست سوال کیا۔ جب صحافیوں نے پوچھا کہ کیا آپ جمال خاشقجی کے اہل خانہ سے معافی مانگتے ہیں تو دونوں رہنماؤں نے خاموشی اختیار کی۔ ملاقات سے قبل جب امریکی صدر اپنی گاڑی سے باہر نکلے تو ولی عہد ان کا استقبال کرنے آئے اور دونوں نے مصافحہ کرنے کے بجائے ایک دوسرے کو مٹھیوں سے چھوا۔
ایڈیٹر

احمد علی کیف نے یونیورسٹی آف لاہور سے ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ پبلک نیوز کا حصہ بننے سے قبل 24 نیوز اور سٹی 42 کا بطور ویب کانٹینٹ ٹیم لیڈ حصہ رہ چکے ہیں۔