ویب ڈیسک: بھارت کے شہر احمد آباد کی گجرات یونیورسٹی میں غیر ملکی مسلم طلبہ پر تراویح کے دوران کیا گیا حملہ مودی سرکار کو مہنگا پڑا ہے۔
تفصیلات کے مطابق اس حملے کی ملک بھر میں اور بیرونِ ملک شدید مذمت کی گئی ہے۔ اس حوالے سے وزارتِ خارجہ وضاحتوں پر مجبور ہے جبکہ وزارتِ داخلہ حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔
احمد آباد کے پولیس کمشنر جی ایس ملک نے کہا ہے کہ اس واقعے کی ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے اور تفتیش و تحقیقات کے لیے 9 ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔
ہفتے کی شب تراویح کی نماز کے دوران انتہا پسند ہندوؤں کے حملے میں 5 غیر ملکی طلبہ زخمی ہوئے تھے جن میں سے 2 کی حالت تشویش ناک ہے۔
گجرات یونیورسٹی کے کیمپس میں مسجد نہ ہونے کے باعث افریقی ممالک، افغانستان اور ازبکستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ ہاسٹل کے ایک کمرے میں تراویح کی رکعتیں ادا کر رہے تھے۔
اس واقعے کے کئی گھنٹے بعد گجرات کے وزیرِ داخلہ ہرش سنگھوی نے پولیس کے اعلیٰ حکام کو اس واقعے کی شفاف و غیر جانب دارانہ تحقیقات کی ہدایت کی۔
احمد آباد پولیس نے اس واقعے کے حوالے سے 2 افراد کو گرفتار کیا ہے۔ وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ گجرات حکومت سے رابطے میں ہے اور اس واقعے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی یقینی بنائی جائے گی۔
غیر ملکی طلبہ نے بتایا کہ ہاسٹل کے گارڈز نے حملہ آوروں کو، جو لاتھیوں اور خنجروں سے لیس تھے، روکنے کی کوشش کی تاہم ناکام رہے۔
افغانستان کے ایک طالب علم نے بتایا کہ حملہ آوروں میں کچھ لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ ان لوگوں کو ہاسٹل میں نماز پڑھنے کی اجازت کس نے دی۔ طالب علم کا کہنا تھا کہ کمروں میں اندر بھی انہیں نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے لیپ ٹاپ اور فون توڑ دیے اور موٹر سائیکلوں کو بھی نقصان پہنچایا۔
افغانستان کے طالب علم نے بتایا کہ زخمی طلبہ میں 2 افریقا کے ہیں اور تین کا تعلق افغانستان، سری لنکا اور ترکمانستان سے ہے۔ پولیس کے آنے پر حملہ آور بھاگ گئے۔ زخمی طلبہ کو اسپتال میں داخل کرادیا گیا ہے اور انہوں نے اپنے سفارت خانوں سے رابطہ کیا ہے۔
سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی وڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ حملہ آوروں نے توڑ پھوڑ کی اور کمروں میں تمام اشیا کو تہس نہس کردیا۔ انہوں نے ہاسٹل پر پتھراؤ بھی کیا۔
ایک حملہ آور کو گارڈ سے یہ پوچھتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے کہ اِن لوگوں کو یہاں نماز پڑھنے کی اجازت کس نے دی، کیا یہ نماز پڑھنے کی جگہ ہے؟
حیدر آباد دکن سے تعلق رکھنے والے پارلیمنٹ کے رکن اسدالدین اویسی نے اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیا وزیر اعظم نریندر مودی ور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ اس گھناؤنے، شرمناک اور ملک کے لیے بدنامی کا باعث بننے والے واقعے کی توضیح پسند کریں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسا ماحول پیدا کردیا گیا ہے کہ لوگ مسلمانوں کو دیکھتے ہی مشتعل ہو جاتے ہیں۔