ورلڈ کپ جیتنے کے بعد آسٹریلوی کرکٹرز نے جوتے میں بیئر کیوں پی ؟

ورلڈ کپ جیتنے کے بعد آسٹریلوی کرکٹرز نے جوتے میں بیئر کیوں پی ؟

پبلک نیوز: ملین ڈالر سوال ہے کہ آخر آسٹریلوی کرکٹرز نے جوتے میں بیئر ڈال کر کیوں پی؟؟؟مگر سوال تو کچھ اور بھی ہیں۔ اور وہ یہ کہ کیا یہ روایت ہے یا پھر ایسا کینگروز نے اچانک ہی کرلیا؟ اگر یہ روایت ہے تو کیا صرف آسٹریلیا کی ہے یا کسی اور ملک کی بھی ہے؟ اس روایت کا نام کیا ہے؟ کس نے اس روایت کو دنیا بھر میں مشہور کیا اور کب کیا ؟ کیا آسٹریلیا میں جوتے میں شراب ڈال کر پینا صرف جشن منانے کا ایک انداز ہے یا کچھ اور بھی؟

20 ویں صدی میں کسی عورت کے جوتے میں شراب ڈال کر پینے کا کیا مطلب تھا؟ پہلی جنگِ عظیم میں جرمن فوجیوں کو شراب جوتے میں ڈال کر پینے کا کیوں کہا گیا؟ کیا ایسا کرنے سے جرمنی کو فائدہ ہوا؟ تو جانتے ہیں ان سوالوں کے جواب۔ حالیہ ٹی 20 ورلڈ چیمپئن بننے کے بعد 3 آسٹریلین کھلاڑیوں میتھیو ویڈ، مارکس اسٹوائنس اور ایرون فنچ نے بیئر کو جوتے میں ڈالا اور غٹاغٹ پی گئے۔

دراصل کینگروز کی جانب سے فتح کا جشن منانے کا یہ انداز صرف اتفاقیہ نہیں تھا بلکہ یہ آسٹریلین روایت ہے، رِیت ہے۔ اس طرح سے جشن منانے کا طریقہ Doing A Shoey کہلاتا ہے۔ آسٹریلیا میں جیت کی خوشی منانے کے لیے جوتے میں شراب خاص کر بیئر ڈال کر پینے کا انداز کافی عرصے سے چلا آرہا ہے۔ آپ میں سے بہت سوں نے یہ پہلی نہیں بلکہ دوسری بار دیکھا ہوگا۔ 2016 میں جرمن گراں پری ریس میں کامیابی کے بعد آسٹریلین فارمولا ون ڈرائیور ڈینیئل ریکارڈو نے پوڈیم پر کھڑے ہوکر جوتے میں شراب ڈالی اور پی گئے تھے ۔اس کے بعد سے فتح کا جشن منانے کا یہ انداز دنیا بھر میں مشہور ہوگیاتھا ۔ لیکن یہ مت بھولیئے گا کہ آسٹریلیا میں یہ پہلے ہی سے مشہور اور مقبول تھا۔

دراصل اوزِیز کا ماننا ہے کہ جوتے میں شراب ڈال کر پینا خوش نصیبی کا باعث ہے۔ اس لیے وہاں ایسا صرف جشن منانے ہی کے لیے نہیں کیا جاتا بلکہ یہ اہم تقریبات اور مقابلوں یا میچز سے پہلے بھی کیا جاتا ہے۔ لیکن ایک بات اس سے بالکل اُلٹ یا مختلف ہے اور وہ یہ کہ 20 ویں صدی کے شروع شروع میں کسی خاتون کے جوتے میں ایک خاص قسم کی شراب، شیمپین ڈال کر پینا فتح، کامیابی یا جیت کی علامت نہیں تھی۔ بلکہ یہ تو تنزلی یا یوں کہیں کہ ہار یا بیک گیئر لگ جانے کا سمبل تھا۔

تاریخ کے اوراق پلٹتے جائیں تو یہ روایت ہمیں جرمنی سے بھی جڑی ملتی ہے۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ پہلی جنگِ عظیم میں جرمنی نے اپنے فوجیوں کو حکم دیا تھا کہ وہ چمڑے سے بنے جوتے میں بیئر ڈال کر پی جائیں۔ اور صرف اکیلے نہ پیئیں بلکہ اسے ایک دوسرے سے شیئر بھی کریں۔ ایسا کرنے سے جنگ سے پہلے ہی ان پر قسمت کی دیوی مہربان ہوجائے گی اور وہ جنگ جیت جائیں گے۔ مگر کیا کیا جائے کہ ایسا بالکل نہیں ہوا۔ جرمن فوج نے جوتوں میں شراب پی اور خوب پی مگر انہیں جیت کے بجائے ہار ہوگئی۔ اگر آپ کو یہ وڈیو پسند آئی ہو تو اسے لائیک اور شیئر ضرور کریں۔

ایڈیٹر

احمد علی کیف نے یونیورسٹی آف لاہور سے ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ پبلک نیوز کا حصہ بننے سے قبل 24 نیوز اور سٹی 42 کا بطور ویب کانٹینٹ ٹیم لیڈ حصہ رہ چکے ہیں۔