بنگلہ دیش :حکومت مخالف مظاہروں میں 35 طلبا ہلاک، بی ٹی وی نذر آتش

35 killed in bangladesh clashes
کیپشن: 35 killed in bangladesh clashes
سورس: google

 ویب ڈیسک : بنگلہ دیش میں  طلباء اور پولیس کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں کم از کم تیس مزید افراد ہلاک ہونے کے بعد ہلاکتوں کی تعداد  39  ہوگئی  سینکڑوں افراد زخمی  ہونے کی اطلاعات ہیں۔

 بنگلہ د یش کے دارالحکومت ڈھاکا میں سینکڑوں افراد اس وقت زخمی ہوئے جب پولیس نے مظاہرین کے گروپوں کو توڑنے کے لیے آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں چلائیں۔ ادھر مظاہرین نے گاڑیوں، پولیس چوکیوں اور دیگر حکومتی اداروں کو نذر آتش کر دیا۔

سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف مظاہرہ کرنے والے طلبہ، سکیورٹی اہلکاروں اور حکومت کے حامی طلبہ کارکنوں کے درمیان مسلسل جھڑپوں کی وجہ سے بڑے پیمانے تشدد نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

طلبہ سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف کئی دنوں سے احتجاجی مظاہرے کر رہے تھے، تاہم حالیہ دنوں میں تشدد میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔حکومت نے ٹیلی فون اور انٹرنیٹ سمیت تمام مواصلاتی رابطے منقطع کر دیے ہیں جبکہ مظاہرین نے ملک کے سرکاری نشریاتی ادارے کے ہیڈ آفس پر حملہ کر کے اسے آگ لگا دی۔

بنگلہ دیش ٹی وی (بی ٹی وی)کے تصدیق شدہ فیس بک پیج پر ایک پوسٹ میں کہا گیا ہے کہ ''تباہ کن آگ تیزی سے پھیل رہی ہے۔'' براڈکاسٹر نے یہ بھی کہا کہ ''ہم فائر سروس سے تعاون چاہتے ہیں۔ بہت سے لوگ اندر پھنسے ہوئے ہیں۔''بی ٹی وی کے ایک اہلکار کے حوالے سے اطلاع دی کہ سینکڑوں مظاہرین نے احاطے پر دھاوا بول دیا اور کم از کم 60 گاڑیوں اور ایک دفتر کی عمارت کو آگ لگا دی۔

اس واقعے سے قبل بنگلہ دیش کے وزیر قانون انیس الحق نے بتایا تھا کہ وزیر اعظم شیخ حسینہ نے انہیں مظاہرین کے ساتھ بات چیت کے لیے میٹنگ کے لیے کہا اور اگر مظاہرین راضی ہوں تو وہ ان سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔

کیمپس کے مظاہرین پر سکیوٹی اہلکاروں کے مسلسل حملوں کے جواب میں طلبہ نے اعلان کیا تھا کہ  وہ ''مکمل شٹ ڈاؤن'' نافذ کریں گے اور صرف ہنگامی خدمات کی اجازت دی جائے گی۔

انسانی حقوق کے گروپوں نے حسینہ کی حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ اپنی طاقت کو مستحکم کرنے اور اختلاف رائے کو دبانے کے لیے ریاستی اداروں کا غلط استعمال کر رہی ہیں۔

بنگلہ دیش کے طلباء سن 1971 میں پاکستان سے جنگ آزادی میں لڑنے والوں کے خاندانوں کے لیے سرکاری ملازمتوں میں مختص 30 فیصد کوٹہ کو ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ ریزرویشن کی وجہ سے ملک میں بڑے پیمانے پر بے روزگاری پھیل رہی ہے۔ بنگلہ دیش کی 170 ملین کی مجموعی آبادی میں تقریباً 32 ملین لوگ ایسے بھی ہیں، جو کام یا تعلیم سے محروم ہیں۔

بنگلہ دیش کی حکومت نے پرامن مظاہروں پر حملہ کرنے کے لیے اپنے کارکنوں اور سکیورٹی فورسز کو استعمال کیا۔

طلبا رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ، ''ہمیں پچھلے تین دنوں سے بڑے پیمانے پر حملوں کا سامنا ہے۔ مظاہرین کو بے دردی سے قتل کیا جا رہا ہے۔'' انہوں نے کہا، ''طلبہ پرامن طریقے سے اپنے مطالبات کو پورا کروانے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن حکومت نے ان کے منطقی مطالبات کو سننے کے بجائے احتجاج پر کریک ڈاؤن کا انتخاب کیا۔''

واضح رہے کہ سن 2018 میں ایک عدالتی حکم نامے کے بعد بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم پر عارضی روک لگا دی گئی تھی، لیکن گزشتہ ماہ ملک کی ایک ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے کوٹہ نظام دوبارہ بحال کر دیا تھا، جس کے بعد طلبہ نے احتجاج کا آغاز کیا۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ اس کوٹے سے وزیر اعظم شیخ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ کے لوگوں کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔ یہ جماعت بنگلہ دیش کی پاکستان سے آزادی کی جنگ میں سرگرم تھی۔

اس حوالے سے بدھ کو حسینہ واجد نے ایک تقریر کے دوران کہا کہ ان مظاہروں میں ہونے والی ہلاکتوں کی تحقیقات کے لیے حکومت ایک عدالتی پینل تشکیل دے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ سات اگست کو سپریم کورٹ میں کوٹہ سسٹم کی بحالی کے خلاف حکومت کی درخواست کی سماعت ہو گی۔ انہوں نے طلبہ سے اپیل کی کہ اس درخواست پر فیصلہ آنے تک وہ صبر کا مظاہرہ کریں۔

Watch Live Public News