ویب ڈیسک: امریکا کی نجی خلائی کمپنی ’ اسپیس ایکس‘ نے منگل کو اپنا ایک اسٹار شپ راکٹ لانچ کیا، جس کے بوسٹر راکٹ کو اپنے واپسی کے سفر کے بعد لانچ ٹاور کے روبوٹک آرمز کی مدد سے اترنا تھا۔ مگر اس عمل میں کمپنی کو کامیابی نہیں ملی۔ تکنیکی وجوہات پر مشن کے اس حصے کو ترک کر دیا گیا۔ اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔
گزشتہ ماہ اس راکٹ کے مقابلے میں ایک چھوٹے راکٹ پر اس تجربے کی کامیابی کے بعد منگل کو یہ مشق دوبارہ کی گئی۔ لیکن اسپیس ایکس کا کہنا ہے کے بعض وجوہات کی بنا پر بوسٹر کا رخ خلیج میکسیکو طرف موڑ دیا گیا۔ بوسٹر تین منٹ کے بعد پانی سے ٹکرا گیا۔
اسپیس ایکس کے ترجمان ڈین ہوٹ نے کہا ہے کہ بوسٹر راکٹ کو لانچ ٹاور پر روکنے کےتمام تقاضے پورے نہیں ہو سکے جس کی وجہ سے فلائٹ ڈائریکٹر نے بوسٹر کو لانچ سائٹ پر جانے کا حکم نہیں دیا۔ ترجمان نے اس بارے میں تفصیل نہیں بتائی۔
راکٹ لانچ کے وقت نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی مشاہدے کے لیےموجود تھے۔
اس سے قبل بتایا گیا تھا کہ ایلون مسک کی خلائی کمپنی اسپیس ایکس کا تقریباً 400 فٹ اونچا اسٹار شپ راکٹ اپنے خلائی جہاز سمیت ریاست ٹیکساس سے لانچ کیا جا رہا ہے۔
اس کا مقصد نہ صرف اسٹار شپ خلائی جہاز کو لانچ کرنے کے بعد واپس زمین پر لانا ہے بلکہ اس کے بوسٹر راکٹ کو بھی سلامتی کے ساتھ واپس پلیٹ فارم پر اتارنا ہے۔
اس فلائٹ سے تقریباً ایک ماہ قبل بوسٹر راکٹ کو لانچ اسٹیشن پر اتارنے کا کامیاب تجربہ کیا گیا تھا جس نے اسپیس ایکس کو خلائی راکٹوں کی صنعت میں ایک عالمی رہنما کے مقام پر فائز کیا۔
اسپیس ایکس کے ایک بھاری بھرکم راکٹ کو لانچ پیڈ پر اتارنے کی ویڈیو انٹرنیٹ پر دنیا بھر میں دکھائی گئی تھی۔
اس تاریخی کامیابی کا ذکر نومنتخب صدر ٹرمپ نے صدارتی الیکشن جیتنے کے بعد اپنی فتح کی تقریر میں کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ دیکھنا ایک خوب صورت چیز تھی‘۔
اگر یہ مشق طے شدہ منصوبہ بندی کے مطابق انجام پاتی تو بلندی سے واپس آنے والے بوسٹر راکٹ کی رفتار لانچ ٹاور کے قریب پہنچ کر انتہائی سست پڑ جانی تھی۔ اس موقع پر دو روبوٹک آہنی ہاتھ اسے اپنی گرفت میں لے لیتے اور بوسٹر راکٹ ساکت ہو جاتا۔ اس عمل میں تقریباً آٹھ سے دس منٹ لگنے تھے۔
جب کہ اس راکٹ کا اسٹارشپ نامی اوپر کا حصہ، زمین کے مدار میں داخل ہونے کے بعد بحر ہند میں اتر گیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی راکٹ کی پرواز کا مشاہدہ کیا، امریکا کے نو منتخب صدر نے رواں ماہ کے اوائل میں ایلون مسک اور وویک راما سوامی کو ایک نئے 'ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی' (ڈوگے) کی سربراہی کے لیے منتخب کیا تھا۔
ٹرمپ نے کہا کہ یہ جوڑا مشاورتی حیثیت میں کام کرے گا اور ڈوگے سرکاری محکمہ نہیں ہوگا۔