پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی جاری نہیں رکھ سکتے

پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی جاری نہیں رکھ سکتے
اسلام آباد: (ویب ڈیسک) وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات پر دی جانے والی سبسڈی پاکستان کی سویلین حکومت چلانے کے خرچے سے دگنی ہے، جسے ہم جاری نہیں رکھ سکتے، اس پر وزیراعظم کو فیصلہ کرنا ہوگا۔ آئی ایم ایف سے میری ملاقات ہو جائے پھر اس پھر بات کروں گا۔ وفاقی وزیر برائے خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ عمران خان نے پونے چار سال میں 20 ہزار ارب روپے سے زائد قرض لیا، ایک خط میں بھی دکھانا چاہتا ہوں، یہ خط عمران خان کی نااہلی کا ثبوت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے دور حکومت میں سرکاری قرضوں کا حجم 24953 ارب روپے سے بڑھ کر 42745 ارب روپے جبکہ مجموعی غیر ملکی قرضوں کا حجم 75 اعشاریہ 4 ارب ڈالر سے بڑھ کر 102 اعشاریہ 3 ارب ڈالر ہو گیا۔ تجارتی خسارہ 43 ارب ڈالر کی سطح پر ہے۔ بے روزگار افراد کی تعداد 35 لاکھ سے بڑھ کر 95 لاکھ ہوگئی۔ ‏آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام واپس ٹریک پر لے کر آئیں گے۔ اے پی پی کے مطابق ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو کابینہ اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ کے دوران کیا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ عمران خان بارودی سرنگ لگا کر گئے۔ ڈیزل اور پیٹرول پر ٹیکس نہیں لیا۔ عمران خان نے شہباز شریف کی حکومت کو مشکل میں ڈالا ہے۔ پٹرول سستا کرنا کوئی مہربانی نہیں ہوتی کیونکہ عوام کے ہی پیسے ہوتے ہیں۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ 52 روپے ڈیزل پر سبسڈی ہے اور 21 روپے پٹرول پر ہے۔ اپریل میں سبسڈی کی مد میں 68 ارب روپے کا خرچہ ہوا جو کل منظور کیا گیا اور اوگرا کے مطابق مئی اور جون میں 96 ارب روپے تک کا خرچہ ہے۔ یہ پاکستان کی سویلین حکومت چلانے کے خرچے سے دگنا ہے، جسے ہم جاری نہیں رکھ سکتے۔ اس پر وزیراعظم کو فیصلہ کرنا ہوگا۔ آئی ایم ایف سے میری ملاقات ہو جائے پھر اس پھر بات کروں گا۔ وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ ایک خط دکھا رہا ہوں جو پی ٹی آئی کی نااہلی اور بدعنوانی بیان کرتاہے، خط دکھاؤں گا اور چھپا کر ساتھ نہیں لے جاؤں گا،وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے پریس بریفنگ کے دوران خط لہرا دیا۔انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف والے 5575 ارب روپے کا خسارہ چھوڑ کرگئے ہیں، ن لیگ کے دور میں بجٹ خسارہ 1600 ارب روپے تھا، عمران خان نے 4 سال میں 20 ہزار ارب سے زائد قرض لیا، مسلم لیگ ن 2 ہزار ارب روپے قرض لیا کرتی تھی،عمران خان ساڑھے 4 ہزار ارب روپے سالانہ قرض لے رہے تھے، انہوں نےایک ڈالر بھی واپس نہیں کیا اور بھاری قرض لینےکے باجود ایک اینٹ بھی نہیں لگائی، ایک اسکول نہیں بنایا،عمران خان اور بزدار نے صرف تختیاں لگائی ہیں۔انہوں نے کہا کہ سمجھ نہیں آیا عمران خان کی حکومت بدعنوان زیادہ تھی یا نااہل، ہم قیمتوں میں کمی کریں گے، روئیں گے نہیں، پاکستان میں روپے کو مستحکم کریں گے، عمران خان کی حکومت میں دوسرے سال منفی فیصد شرح نمو تھی، اشیائے خوردونوش میں موجودہ وقت میں مہنگائی 17.3 فیصد ہے،ٹیکس محاصل 11 فیصد سے کم ہو کر 9 فیصد پر آگئے ہیں۔ مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ عمران خان نے سالانہ قرض 900 فیصد بڑھا دیا، آج ایک کروڑ 35 لاکھ بچے مفلسی میں زندگی گزار رہے ہیں، ایکسپورٹ ضرور بڑھی لیکن مہنگائی بھی بڑھ گئی ہے، ایکسپورٹ سے زیادہ امپورٹ میں اضافہ ہوا ہے، ایس این جی پی ایل میں دو سو ارب سے زیادہ نقصان ہوا ہے، گیس سیکٹر کا اس سے پہلے کوئی سرکلر ڈیٹ نہیں تھا، آج 15سو ارب روپے کا سرکلر ڈیٹ گیس سیکٹر میں ہے۔وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ یوریا ایک لاکھ چالیس ہزار ٹن اسمگل ہوچکا ہے، یوریا کی ایکسپورٹ کی اجازت نہیں ملنی چاہیے تھی، عمران خان کی حکومت نے پچھلے سال گندم ایکسپورٹ کردی، وزیراعظم نے فوری طور پر تحقیقاتی کمیشن بنانے کی ہدایت کی ،تحقیقات کریں گے کہ اس اسمگلنگ میں کون کون ملوث ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ تحریک انصاف کے دورحکومت میں سرکاری قرضوں کاحجم 24953 ارب روپے سے بڑھ کر42745 ارب روپے جبکہ مجموعی غیرملکی قرضوں کاحجم 75.4 ارب ڈالر سے بڑھ کر102.3 ارب ڈالرہوگیاہے، حسابات جاریہ کے کھاتوں کاخسارہ 20 ارب ڈالر اورتجارتی خسارہ 30.9 ارب ڈالر سے بڑھ کر43 ارب ڈالرکی سطح پرپہنچ گیاہے ۔انہوں نے کہاکہ تحریک انصاف کے دورحکومت میں بے روزگارافرادکی تعداد 35 لاکھ سے بڑھ کر95 لاکھ ہوگئی جبکہ خط غربت سے نیچے رہنے والے افراد کی تعداد55 سے بڑھ کر75 ملین کی سطح پرپہنچ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مالی سال 2017-18میں مجموعی قومی پیداوار(جی ڈی پی) کی نموکی شرح 6.1 فیصدتھی جو سال 2021-22 میں 4 فیصدہے، صارفین کیلئے قیمتوں کااشاریہ (سی پی آئی) مالی سال 2017-18میں 3.9فیصد تھی جومالی سال 2021-22 میں 10.8 فیصدہوگئی ہے، قیمتوں کاحساس اشاریہ (ایس پی آئی) جومالی سال 2017-18 میں 0.9 فیصدتھا مالی سال 2021-22 میں بڑھ کر17.3 فیصدہوگیاہے۔ انہوں نے کہا کہ اشیائے خوراک افراط زرمالی سال 2018 میں 2.3 فیصدتھی جو مالی سال 2022 میں 10.2 فیصدہوگئی ہے، مالی سال 2018 میں مالیاتی خسارہ کاحجم 2260 ارب روپے تھاجومالی سال 2022 میں بڑھ کر5600 ارب ہوگیاہے۔ انہوں نے کہاکہ مالی سال 2018میں جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح 11.1 فیصدتھی جومالی سال 2022 میں کم ہوکر9.1 فیصدہوگئی، ان کا کہنا تھا کہ مالی سال 2018 میں سرکاری قرضوں کاحجم 24953 ارب روپے تھا جومالی سال 2022 میں بڑھ کر42745 ارب روپے تک پہنچ گیاہے، 2018 میں سرکاری قرضوں میں اوسط سالانہ اضافہ کاحجم 2132 ارب روپے تھا جو2022 میں بڑھ کر5083 ارب روپے ہوگیا،2018 میں مجموعی قرضوں اورواجبات کاحجم 29878 ارب روپے تھا جو 2022 میں بڑھ کر51724 ارب روپے ہوگیا،2018 میں مجموعی قرضوں اورواجبات میں اوسط سالانہ اضافہ کاحجم 2708 ارب روپے تھا جو 2022 میں بڑھ کر6241 ارب روپے ہے۔ وفاقی کابینہ کوبتایاگیا کہ 2017-18 میں غیرملکی قرضوں کاحجم 75.4 ارب ڈالرتھاجو مالی سال 2022 میں بڑھ کر102.3 ارب ڈالرہوگیا، مجموعی غیرملکی سرکاری قرضوں میں اوسط سالانہ اضافہ کاحجم 2018 میں 4.8 ارب ڈالرتھا جو2022میں بڑھ کر7.7 ارب ڈالرہوگیا۔مالی سال 2018 میں بے روزگارافرادکی تعداد 35 لاکھ تھی جو مالی سال 2022 میں بڑھ کر95 لاکھ ہوگئی ہے، 2018 میں خط غربت سے نیچھے رہنے والے افراد کی تعداد55 ملین تھی جو 2022 میں بڑھ کر75 ملین ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا مالی سال 2017-18 میں حسابات جاریہ کے کھاتوں کاخسارہ 19.2 ارب ڈالرتھا جومالی سال 2022 میں بڑھ کر20 ارب ڈالرہوگیا، مالی سال 2018 میں پاکستان کاتجارتی خسارہ 30 اعشاریہ 9 ارب ڈالرتھاجومالی سال 2022 میں بڑھ کر43 ارب ڈالرتک پہنچ گیاہے، 2018 میں سٹیٹ بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائرکاحجم 10 ارب ڈالرتھاجو2022 میں 10.8 ارب ڈالرہوگیاہے۔ انہوں نے کہاکہ سال 2018 میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رینکنگ میں پاکستان 117 ویں نمبرتھا جوسال 2021 میں 140 نمبرپرچلاگیا، 2018 میں ہینلے پاسپورٹ رینکنگ میں پاکستانی پاسپورٹ 104 ویں نمبرپرتھا جومالی سال 2022 میں 109 ویں نمبرپرچلاگیاہے۔

Watch Live Public News

ایڈیٹر

احمد علی کیف نے یونیورسٹی آف لاہور سے ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ پبلک نیوز کا حصہ بننے سے قبل 24 نیوز اور سٹی 42 کا بطور ویب کانٹینٹ ٹیم لیڈ حصہ رہ چکے ہیں۔