ویب ڈیسک : الیکشن کمیشن نے رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی نئی فہرست جاری کردی جس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے نئے چیئرمین کا نام شامل نہیں ہے۔
رپورٹ کے مطابق نئی فہرست میں مسلم لیگ (ن) کے پارٹی کے صدارتی الیکشن اور جماعت اسلامی کے انٹر پارٹی الیکشن تسلیم کرلیے گئے ہیں۔
اس میں کئی سیاسی جماعتوں کے نئے پارٹی صدر یا چیئرمین کے نام بھی اپ ڈیٹ کر دیے گئے ہیں۔
تاہم نئی اپ ڈیٹڈ فہرست میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے پارٹی چیئرمین کا نام تاحال اپ ڈیٹ نہیں کیا گیا ہے، الیکشن کمیشن نے میاں نواز شریف کا نام بطور صدر مسلم لیگ (ن) اپ ڈیٹ کر دیا۔
اس کے علاوہ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کا نام بطور پارٹی سربراہ اور محمود خان کا نام بطور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز اپ ڈیٹ کردیا گیا ہے۔
محمود خان کا نام بطور چئیرمین پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹرین جبکہ شمس القیوم بطور وزیر چئیرمین جماعت اسفاء اپ ڈیٹ کردیا گیا ۔
اسی طرح صدر مملکت آصف علی زرداری کا نام بطور صدر پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین موجود ہے جبکہ بلاول بھٹو زرداری کا نام بطور چئیرمین پاکستان پیپلز پارٹی شامل ہے۔
اسفندیار ولی خان کا نام تاحال بطور صدر عوامی نیشنل پارٹی موجود ہے ۔
پاکستان تحریک انصاف اور الیکشن کمیشن
پی ٹی آئی نے 9 جون 2022 کو انٹرا پارٹی انتخابات کرائے تھے جس کیس کو الیکشن کمیشن نے تقریباً ڈیڑھ سال تک گھسیٹنے کے بعد نومبر 2023 میں کالعدم قرار دے دیا تھا۔
23 نومبر 2023 کو جاری حکم میں الیکشن کمیشن نے سابق حکمران جماعت کو اپنے انتخابی نشان بلے سے محروم نہیں ہونے کے لیے نئے انتخابات کروانے کے لیے 20 دن کا وقت دیا۔
الیکشن کمیشن کا حکم ایک ایسے وقت میں آیا جب عام انتخابات میں تقریباً دو ماہ باقی تھے اور سیاسی جماعتیں ملک بھر میں اپنی انتخابی مہم تیزی سے چلا رہی تھیں۔
اپنے مشہور انتخابی نشان کو برقرار رکھنے کے لیے بے چین پی ٹی آئی نے 10 دن سے بھی کم وقت لیا اور 2 دسمبر 2023 کو انٹرا پارٹی انتخابات کرائے گئے۔
22 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں دوسری بار پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دے دیا جس کے بعد ایک سیاسی جماعت کے اندرونی کام کی نوعیت کا پہلا خوردبینی جائزہ لیا گیا اور اسے آئندہ الیکشن میں حصہ لینے کے لیے انتخابی نشان حاصل کرنے کے لیے نااہل قرار دیا گیا۔
الیکشن کمیشن نے مؤقف اختیار کیا کہ پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کے لیے وفاقی الیکشن کمشنر کا تقرر نہیں کر سکتے تھے۔
کمیشن کے فیصلے کی وجہ سے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو آزاد حیثیت سے عام انتخابات میں حصہ لینا پڑا اور پارٹی کو اس سال 3 مارچ کو تیسری بار اپنا انٹرا پارٹی الیکشن منعقد کرنا پڑا۔
تاہم الیکشن کمیشن نے ایک بار پھر انتخابی مشق پر اعتراضات اٹھائے اور اعتراضات کی تفصیلات بتائے بغیر ہی معاملہ سماعت کے لیے مقرر کردیا۔
پی ٹی آئی کے اعتراضات پر کمیشن نے بالآخر ان کے ساتھ ایک سوالنامہ شیئر کیا جس میں پارٹی کے انٹرا پارٹی انتخابات کے بارے میں معلومات حاصل کی گئیں اور تنظیمی ڈھانچہ اور انتخابی نشان کھونے کے بعد پارٹی کی حیثیت پر سوال اٹھایا گیا۔
پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کی طرف سے پوچھے گئے 7 سوالات کے تفصیلی جواب جمع کرائے تھے، جس میں الیکشن باڈی پر زور دیا گیا تھا کہ وہ تازہ ترین انٹرا پارٹی انتخابات کو باضابطہ طور پر تسلیم کرے، پارٹی کے وفاقی چیف الیکشن کمشنر رؤف حسن نے اپنے جواب میں کہا تھا کہ پی ٹی آئی ایک موجودہ اور فعال سیاسی جماعت ہے جو الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 202 کے تحت الیکشن کمیشن میں درج ہے۔
یاد رہے کہ 16 جنوری کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی نئی فہرست جاری کر دی جس میں پاکستان تحریک انصاف کا نام بھی شامل تھا۔