سپریم کورٹ نے سویلینز کا فوجی عدالتوں‌میں ٹرائل کالعدم قرار دے دیا

سپریم کورٹ نے سویلینز کا فوجی عدالتوں‌میں ٹرائل کالعدم قرار دے دیا
اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف کیس کا فیصلہ محفوظ سنا دیا.عدالت نےسویلینز کا فوجی عدالتوں‌میں ٹرائل کالعدم قرار دے دیا. سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکم دیا کہ 9 مئی کے ملزمان کا ٹرائل عام عدالتوں میں ہوگا.عدالت نے ملٹری ایکٹ کا سیکشن ٹو ون ڈی کو آئین کے برخلاف قرار دے دیا اور حکم دیا کہ ملزمان کے جرم کی نوعیت کے اعتبار سے مقدمات عام عدالتوں میں چلائے جائیں . فوج کی تحویل میں موجود 9 ملزمان کی درخواستیں خلاف قواعد ہونے پر خارج کر دی گئیں . آرمی ایکٹ کے سیکشن 59 کی ذیلی شق چار بھی کالعدم قرار دے دی گئی. سپریم کورٹ نے فیصلہ چار ایک کی اکثریت سے سنایا.جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا ہے.جسٹس یحییٰ آفریدی نے ملٹری ایکٹ کی سیکشن ٹو ون ڈی ون اور ٹو ڈی ٹو کو کالعدم قرار دینے کی حد تک فیصلے سے اختلاف کیا.ملٹری ایکٹ کی شق پر جسٹس یحییٰ آفریدی کا محفوظ فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا. جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں5 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔لاجربینچ میں جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، درخواست گزار کے وکیل خواجہ احمد حسین اور سلمان اکرم راجہ سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔دوران سماعت وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ کچھ نئی درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آخری آرڈر کے مطابق اٹارنی جنرل کے دلائل چل رہے تھے، اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہو جائیں پھر کیس چلانے کا طریقے کار دیکھیں گے۔ وکیل سلمان اکرم راجہ بولے کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل اس کیس کے فیصلے سے پہلے ہی شروع کر دیا گیا۔اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پہلے اٹارنی جنرل کو دلائل مکمل کرنے دیں پھر سب کو سنیں گے۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کے دلائل:

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کا ایک سے ڈیرھ گھنٹہ لوں گا، عدالت کو آگاہ کروں گا کہ2015ء میں آئینی ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتیں کیوں بنائی تھیں، یہ بھی بتاؤں گا کہ اس وقت فوجی عدالتوں کے لیے آئینی ترمیم کیوں ضروری نہیں، دلائل کے دوران عدالتی سوالات کے جوابات بھی دوں گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ ماضی کی فوجی عدالتوں میں جن کا ٹرائل ہوا وہ کون تھے؟ کیا 2015ء کے ملزمان عام شہری تھے، غیر ملکی یا دہشت گرد؟جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ملزمان میں ملکی و غیرملکی دونوں ہی شامل تھے، سال 2015ء میں جن کا ٹرائل ہوا ان میں دہشت گردوں کے سہولتکار بھی شامل تھے، ملزمان کا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن ٹو ون ڈی کے تحت ٹرائل کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سوال پوچھا گیا تھا کہ ملزمان پر چارج کیسے فریم ہو گا؟ آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل میں فوجداری مقدمے کے تمام تقاضے پورے ہوں گے، 9 مئی کے ملزمان کا ٹرائل فوجداری عدالت کی طرز پر ہو گا، فیصلے میں وجوہات دی جائیں گی اور شہادتیں بھی ریکارڈ ہوں گی، آئین کے آرٹیکل 10 اے کے تحت شفاف ٹرائل کے تمام تقاضے پورے ہوں گے، ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں اپیلیں بھی کی جاسکیں گی۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 21 ویں آئینی ترمیم اس لیے کی گئی تھی کہ دہشت گرد آرمی ایکٹ کے دائرے میں نہیں تھے، دہشت گردوں کے فوجی ٹرائل کے لیے 21ویں آئینی ترمیم کی گئی۔ اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ دہشت گردوں کے ٹرائل کے لیے ترمیم ضروری تھی تو سویلینز کے لیے کیوں نہیں؟ کیا 21ویں آئینی ترمیم کے وقت بھی ملزمان نے فوج یا تنصیبات پر حملہ کیا تھا؟۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ 21ویں ترمیم میں ممنوع علاقوں میں حملے والوں کے فوجی ٹرائل کی شق شامل کی گئی تھی۔جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ جو ٹرائل فوجی افسران کو قابل قبول نہیں تھا وہ دوسروں کا کیسے کیا گیا؟. جسٹس اعجازالاحسن استفسار کیا کہ سویلینز آرمی ایکٹ کے دائرے میں کیسے آتے ہیں؟، جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ آئین کا آرٹیکل 8 کیا کہتا ہے اٹارنی جنرل صاحب؟. اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرٹیکل 8 کے مطابق بنیادی حقوق کے خلاف قانون سازی برقرار نہیں رہ سکتی۔جس پر جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آرمی ایکٹ افواج میں نظم و ضبط کے قیام کے لیے ہے، افواج میں نظم وضبط کے قانون کا اطلاق سویلینز پر کیسے ہو سکتا ہے؟ 21ویں ترمیم کا دفاع کیسے کیا جاسکتا ہے؟۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ افواج کا نظم وضبط اندرونی، افواج کے فرائض ادائیگی میں رکاوٹ ڈالنا بیرونی معاملہ ہے، فوجی عدالتوں میں ہر ایسے شخص کا ٹرائل ہو سکتا جو اس کے زمرے میں آئے۔اس پر جسٹس اعجاز الاحسن بولے کہ جن قوانین کا آپ حوالہ دے رہے ہیں وہ فوج کے ڈسپلن سے متعلق ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا بنیادی حقوق کی فراہمی پارلیمان کی مرضی پر چھوڑی جا سکتی ہے؟ آئین بنیادی حقوق کی فراہمی کو ہرقیمت پر یقینی بناتا ہے، شہریوں پر آرمی کے ڈسپلن اور بنیادی حقوق معطلی کے قوانین کیسے لاگو ہو سکتے؟ عدالت نے یہ دروازہ کھولا تو ٹریفک سگنل توڑنے والا بھی بنیادی حقوق سے محروم ہو جائے گا، کیا آئین کی یہ تشریح کریں کہ جب دل چاہے بنیادی حقوق معطل کر دیے جائیں؟۔
ایڈیٹر

احمد علی کیف نے یونیورسٹی آف لاہور سے ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ پبلک نیوز کا حصہ بننے سے قبل 24 نیوز اور سٹی 42 کا بطور ویب کانٹینٹ ٹیم لیڈ حصہ رہ چکے ہیں۔