جرمنی: قبروں پر چسپاں کیوآرکوڈزاسکین کرنے پرحیرت انگیز انکشافات

جرمنی: قبروں پر چسپاں کیوآرکوڈزاسکین کرنے پرحیرت انگیز انکشافات
کیپشن: جرمنی: قبروں پر چسپاں کیوآرکوڈزاسکین کرنے پرحیرت انگیز انکشافات

ویب ڈیسک: جرمنی کے قبرستانوں میں ایک انوکھے اور پراسرار معاملے نے عوام اور سوشل میڈیا صارفین کو حیران کر دیا تھا۔ دسمبر میں یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب قبرستان جانے والے افراد نے دیکھا کہ ان کے پیاروں کی قبروں پر چھوٹے ’ کیوآر‘ کوڈز کے اسٹیکرز چسپاں ہیں۔ جب ان کوڈز کو اسکین کیا جاتا تو یہ مرحومین کے نام اور ان کی قبر کی جگہ کے بارے میں معلومات فراہم کرتے تھے۔

تفصیالت کے مطابق یہ اسٹیکرز تقریباً 1.95x1.2 انچ کے سائز کے تھے اور انہیں والڈ فریڈہوف، سینڈلنگر فریڈہوف، اور فریڈہوف سولن کے قبرستانوں میں لگایا گیا تھا۔

جب یہ معاملہ میڈیا کی زینت بنا تو قیاس آرائیاں شروع ہوگئیں۔ کچھ لوگوں نے اسے کسی مارکیٹنگ مہم کا حصہ قرار دیا، جبکہ دیگر کا خیال تھا کہ یہ کسی آرٹسٹ کی تکنیکی تخلیق ہے یا کسی نے جان بوجھ کر شرارت کی ہے۔

چونکہ ان اسٹیکرز کو ہٹانے میں کافی خرچہ ہو رہا تھا، اس لیے قبرستان انتظامیہ نے پولیس سے مدد طلب کی۔ تحقیقات کے بعد یہ معلوم ہوا کہ ’ کیوآر‘ کوڈز دراصل ایک مقامی باغبانی کمپنی نے لگائے تھے، جو قبروں کی صفائی اور دیکھ بھال کی ذمہ دار تھی۔

کمپنی کے ایک سینئر مینیجر، الفریڈ زینکر نے وضاحت کی کہ ان اسٹیکرز کا مقصد صرف کمپنی کے ملازمین کو یہ بتانا تھا کہ کون سی قبریں صفائی اور مرمت کے عمل سے گزر چکی ہیں۔ انہوں نے کہا، ’ہم ایک بڑی کمپنی ہیں اور ہمارے کام کا ایک منظم طریقہ ہونا ضروری ہے۔‘

جرمن اخبار کے مطابق، قبر کی دیکھ بھال کا عمل خاصا پیچیدہ ہوتا ہے۔ پتھر کو پہلے ہٹایا جاتا ہے، اس کے داغ صاف کیے جاتے ہیں، اور پھر اسے واپس نصب کیا جاتا ہے۔ پولیس کا اندازہ ہے کہ اس تمام عمل کی وجہ سے قبرستانوں کو تقریباً 5 لاکھ یورو (تقریباً 4.5 کروڑ روپے) کا نقصان ہوا۔

کیا میونخ میں کیوآر کوڈز کی اجازت ہے؟

دلچسپ بات یہ ہے کہ میونخ کے قبرستانوں میں کیوآر کوڈز کا استعمال عام ہے، لیکن وہ کوڈز عموماً دھات کی پلیٹوں یا پتھر پر کندہ کیے جاتے ہیں تاکہ رشتہ دار اپنے پیاروں کی آن لائن یادداشتوں، تصاویر اور دیگر ڈیجیٹل یادگاروں تک رسائی حاصل کر سکیں۔ لیکن مذکورہ کمپنی نے اسٹیکرز کا طریقہ استعمال کیا، جو انتظامیہ کے لیے پریشانی کا باعث بنا۔ تاہم، یہ انوکھا معمہ بالآخر حل ہو گیا۔

Watch Live Public News