کیا ہر احتجاج پر پورا ملک بند کر دیا جائے گا؟ سپریم کورٹ

کیا ہر احتجاج پر پورا ملک بند کر دیا جائے گا؟ سپریم کورٹ
سپریم کورٹ کے معزز جج جسٹس اعجاز الاحسن نے لانگ مارچ کے دوران راستوں کی بندش اور گرفتاریوں کیخلاف کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیا ہر احتجاج پر پورا ملک بند کر دیا جائے گا؟ عدالت عظمیٰ نے سیکرٹری داخلہ، چیف کمشنر اسلام آباد، آئی جی، ڈپٹی کمشنر اور ایڈووکیٹ جنرل کو آج 12 بجے طلب کر لیا۔ سپریم کورٹ نے چاروں صوبائی حکومتوں کو بھی نوٹس جاری کر دیے۔ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن کا ریمارکس دیتے ہوئے کہنا تھا کہ تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ، سکولز اور ٹرانسپورٹ بند ہے۔ معاشی لحاظ سے ملک نازک دوراہے اور دیوالیہ ہونے کے در پر ہے۔ کیا ہر احتجاج پر پورا ملک بند کر دیا جائے گا؟ تمام امتحانات ملتوی، سڑکیں اور کاروبار بند کر دیے گئے ہیں۔ بنیادی طور پر حکومت کاروبار زندگی ہی بند کرنا چاہ رہی ہے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ مجھے تفصیلات کا علم نہیں، معلومات لینے کا وقت دیں۔ اس پر جسٹس مظاہر نقوی نے ان کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب کیا آپکو ملکی حالات کا علم نہیں؟ سپریم کورٹ کا آدھا عملہ راستے بند ہونے کی وجہ سے پہنچ نہیں سکا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سکولز کی بندش کے حوالے سے شاید آپ میڈیا رپورٹس کا حوالہ دے رہے ہیں۔ میڈیا کی ہر رپورٹ درست نہیں ہوتی۔ اس پر جسٹس مظاہر نقوی کا کہنا تھا کہ سکولز کی بندش اور امتحانات ملتوی ہونے کے سرکاری نوٹفکیشن جاری ہوئے ہیں۔ عدالت کے روبرو اپنے بیان میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ خونی مارچ کی دھمکی دی گئی ہے۔ بنیادی طور پر راستوں کی بندش کے خلاف ہوں۔ لیکن عوام کی جان ومال کے تحفظ کیلئے اقدامات ناگزیر ہوتے ہیں۔ راستوں کی بندش کو سیاق و سباق کے مطابق دیکھا جائے۔ معزز جج جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ماضی میں بھی احتجاج کیلئے جگہ مختص کی گئی تھی۔ میڈیا کے مطابق تحریک انصاف نے احتجاج کی اجازت کیلئے درخواست دی تھی۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں انتظامیہ سے معلوم کرتا ہوں کہ درخواست پر کیا فیصلہ ہوا۔

Watch Live Public News

ایڈیٹر

احمد علی کیف نے یونیورسٹی آف لاہور سے ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ پبلک نیوز کا حصہ بننے سے قبل 24 نیوز اور سٹی 42 کا بطور ویب کانٹینٹ ٹیم لیڈ حصہ رہ چکے ہیں۔