ویب ڈیسک: پنجاب کے ضلع پاکپتن میں پولیس نے ایک واٹس ایپ گروپ میں توہین آمیز مواد شیئر کرنے اور لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح کرنے کے الزام میں گروپ ایڈمن سمیت پانچ افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔
بی بی سی اردو کو دستیاب ایف آئی آر کے مطابق یہ مقدمہ 26 جون کو عارفوالہ سٹی تھانے میں درج کیا گیا تھا۔ مقدمے کے مدعی کے مطابق واٹس ایپ گروپ میں شیئر کیے گئے مواد کے سبب ان کے ’مذہبی عقائد مجروح‘ ہوئے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ واٹس ایپ گروپ کے ایڈمن سمیت پانچ افراد نے ’شہر میں شر پھیلانے اور پُرامن فضا کو خراب کرنے کی سازش کی ہے۔‘
یہ مقدمہ پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) 2016 اور تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295 اے کے تحت درج کیا گیا ہے۔
عارفوالہ سٹی تھانے کے ایس ایچ او نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ پولیس نے واٹس ایپ گروپ میں ’ توہین آمیز مواد‘ شیئر کرنے والے شخص کو گرفتار کر لیا ہے اور انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا ہے۔
واٹس ایپ گروپ کے ایڈمن کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کے حوالے سے بھی تحقیقات جاری ہیں، تاہم انہیں ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔
ایسے مقدمات پر گہری نظر رکھنے والے ماہرِ قانون اسد جمال کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات میں کسی گروپ کے ایڈمن پر یہ الزام لگ سکتا ہے کہ ’اُسے کہا گیا ہو کہ آپ یہ مواد ڈیلیٹ کریں کیونکہ یہ واضح طور پر پاکستان کے قوانین کے خلاف ہے لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا ہو، اس صورت میں ان کے خلاف سہولت کاری کے الزام میں مقدمہ درج ہوسکتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’لیکن ایسا صرف اس صورت میں ہوسکتا ہے جب گروپ ایڈمن کے علم میں یہ بات لائی گئی ہو اور انہوں نے جان بوجھ کر اس ( توہین آمیز) مواد کو گروپ سے ڈیلیٹ نہ کیا ہو۔‘