اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ الیکشن کے بغیر جمہوری حکومتیں نہیں آ سکتیں۔ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے پنجاب اور کے پی انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی اور جے یوآئی نے فریق بننے کی متفرق درخواست دائر کر دی۔ دوران سماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ جسٹس جمال کے ریمارکس کے بعد فل کورٹ بنائی جائے، جس پر جسٹس جمال بولے کہ فل کورٹ کیوں؟ وہی 7 ججز بنچ میں بیٹھنے چاہئیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا دہشت گردی 20سال سے مسئلہ ہے، اس کے باوجود ملک میں انتخابات ہوتے رہے ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ اگر ادارے آپ کو معاونت فراہم کریں تو کیا آپ الیکشن کرائیں گے؟ ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ اگر انتظامی ادارے تعاون نہیں کر رہے تھے تو عدالت کو بتاتے، اگر پیسے اور سکیورٹی مل جائے تو 30 اپریل کو انتخابات ہو سکتے ہیں؟ جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا حکومتی معاونت مل جائے تو 30 اپریل کو انتخابات کرا سکتے ہیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال پوچھا کہ 8 اکتوبر کو کون سا جادو ہو جائے گا جو سب ٹھیک ہو جائے گا؟ 8 اکتوبر کی جگہ 8 ستمبر یا 8 اگست کیوں نہیں ہو سکتی؟ جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل بولے کہ 8 اکتوبر کی تاریخ عبوری جائزے کے بعد دی۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عبوری جائزے کا مطلب انتخابات مزید تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں، عدالت کو پکی بات چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن راستہ نہیں ڈھونڈ سکتا تو ہم ڈھونڈیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا سیاسی درجہ حرارت کم ہونے تک انتحابات پر امن نہیں ہو سکتے، کسی فریق نے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کی یقین دہانی نہیں کرائی۔انہوں نے کہا کہ حکومت سے پوچھتے ہیں کہ چھ ماہ کا عرصہ کم ہو سکتا ہے یا نہیں، الیکشن کمیشن نے ابھی تک سمندر پار پاکستانیوں کی ووٹنگ کے لیے کچھ نہیں کیا۔ا الیکشن کے بغیر جمہوری حکومتیں نہیں آ سکتیں، دو وزرائے اعلی نے اچھا یا برا اسمبلی تحلیل کرنے کا اپنا اختیار استعمال کیا۔ بعد ازاں کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔ اٹارنی جنرل کل دلائل دیں گے۔ ادھر عرفان قادر نے سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کی نمائندگی کے لیے معاون خصوصی کے عہدے سے استعفیٰ دیدیا۔ عرفان قادر سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کی نمائندگی کریں گے۔