’ امریکا کے ساتھ امن کا حصہ تو بن سکتے ہیں جنگ کا نہیں‘

’ امریکا کے ساتھ امن کا حصہ تو بن سکتے ہیں جنگ کا نہیں‘
اسلام آباد ( پبلک نیوز ) وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ میں اپنی اتحادوں جماعتوں اور اپنی جماعت کے ممبران کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جس طرح انہوں نے بجٹ اجلاس میں بھرپور شرکت کی۔میں آج اپنی بجٹ کی تقریر سے پہلے اپوزیشن کو دعوت دینا چاہتا ہوں کہ اس ملک میں 1970 کے بعد سارے انتخابات متنازعہ ہوئے ٗ ابھی بھی سینٹ الیکشن میں کنٹرورسی ہو گئی۔قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے کہا کہ ہم نے الیکشن ریفارمز کی تجویز دی ہے ٗ اس پر اپوزیشن کی کوئی ڈیبیٹ نہیں ہوئی تو میں اپوزیشن سے درخواست کروں گا کہ یہ حکومت اپوزیشن کی بات نہیں ہے ٗ یہ پاکستان میں جمہوریت کا مستقبل ہے کہ جو بھی الیکشن ہارے وہ تسلیم کرے۔ انہوں نے کہا کہ میری 21 سال زندگی کرکٹ میں گزری تو میں اپنے تجربے سے بتانا چاہتا ہوں کہ جب ہم کرکٹ کھیلتے تھے تو جو ہارنے والا تھا تو وہ ہار نہیں مانتا تھا تو وہ کہتا تھا کہ امپائروں نے ہمیں ہروا دیا اور مجھے فخر ہے اس چیز پر کہ میں نے پاکستانی کپتان کے طور پر مہم چلائی اور پاکستان وہ ملک تھا جس نے کرکٹ کی تاریخ میں پہلی بار نیوٹرل امپائر کھڑے کئے اور آج دنیا کی کرکٹ میں نیوٹرل امپائر بھی ہیں اور ٹیکنالوجی بھی ہیں ٗ یعنی کرکٹ میں اب جو شفافیت آگئی ہے اس میں امپائر والا سسٹم ہی ختم ہو گیا ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم بھی الیکشن لڑیں اور کسی کو یہ فکر نہ ہو کہ مجھے دھاندلی سے ہرا دیا جائیگا ٗ پہلے دن میں نے تقریر کرنے کی کوشش کی اپوزیشن نے نہیں کرنے دی ٗ انہوں نے کہا کہ الیکشن ٹھیک نہیں ہوئے ٗ جب الیکشن نہیں ہوئے تو بتانا تھا کہ کیسے ٹھیک نہیں ہوئے ٗ جب ٹرمپ نے کہا کہ الیکشن ٹھیک نہیں ہوئے تو ان کی پبلک اور میڈیا نے کہا کہ ثبوت دو کہ کیسے ٹھیک نہیں ہوئے ۔ ہم نے جب 2013 کے الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگایا تو ہم نے 133 میں سے چار حلقے ڈیمانڈ کئے تھے کہ ان کی آڈٹ کر دیں ٗ اگر یہ ٹھیک ہیں تو ہم الیکشن مان لیں گے ٗ عدالت میں جاکر کیس لڑ کر وہ حلقے کھلے اور چاروں میں دھاندلی نکلی۔انہوں نے مزید کہا کہ 2015 میں جوڈیشل کمیشن بیٹھی تھی ٗ جس کی فائنڈنگ تھی 2013 کے الیکشن پر کہ بے ضابطگیاں ہیں الیکشن میں ٗ اور یہ اس وقت ہوتی ہیں جب پولنگ ختم ہوتی تھی اور اس کے بعد جب رزلٹ انائونس ہوتا تھا ٗ تو ہم اس پر ایک نتیجے پر آئے کہ اس کا صرف ایک راستہ ہے اور وہ ہے ای وی ایم مشینز ۔ وہ کیوں ہیں کیونکہ جیسے ہی الیکشن ختم ہوتا ہے ٗ بٹن دبتا ہے اور رزلٹ آ جاتا ہے ٗ تو وہ جو سارا وقت ہے اس کے بعد جہاں ڈبل سٹیمپ ہوتے ہیں ٗ تھیلیاں کھلتی ہیں ۔ وہ ساری چیزیں ختم ہو جاتی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ اگر اپوزیشن کے پاس کوئی اور تجویز ہے تو ہم وہ بھی سننے کیلئے تیار ہیں ٗ آج ہم الیکشن ریفارم نہیں ہو گی تو ہر الیکشن میں ایسا ہو گا ٗ اب میں اس بجٹ پر آتا ہوں ٗ اس بجٹ پر بات کرنے سے پہلے میں اپنے وژن پر بات کرنا چاہتا ہوں ٗ بجٹ ملکی وژن سے ریفلیکٹ کرنا چاہئیے ۔ میں شوکت ترین اور ساری ٹیم کو خراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے پاکستا ن کے حوالے سے میری وژن کے مطابق بجٹ بنایا ہے۔انہوں نے کہا کہ جب ہم نے 25 سال پہلے تحریک انصاف کو شروع کیا تو ہماری جو موٹی ویشن تھی ٗ وہ نظریہ پاکستان تھا ۔ جہاں واضح ہے اسلامی ٗ فلاحی ریاست ٗ یہ ہمارے بانیان نے مدینہ کی ریاست سے لیا ٗ کیونکہ وہ دنیا کی پہلی فلاحی ریاست تھی ٗ یہ کیوں ضروری ہے کہ پاکستان کے اسی وژن پر واپس جایا جائے ٗ وہ اس لئے ضروری ہے کہ اگر ہم اس وژن سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں ۔ جب پاکستان بنا تھا تو بہت سے مسلمان ہندوستان میں وہ گئے تھے مگر انہوں نے بھی پاکستان کی حمایت کی تھی ۔وزیر اعظم پاکستان نے کہا کہ مسلمانوں نے جب بھی ترقی کی وہ مدینہ کی ریاست کے اصول اپنا کر قوم اٹھی ۔ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ پہنچے تو انہوں نے جو اصول وضع کئے ۔ اسی وجہ سے صرف تیرہ سال میں پہلی سپر پاور بازنطینی امپائر نے مسلمانوں کے سامنے گھٹنے ٹیکے ٗ چودہ سال کے بعد ایران نے گھٹنے ٹیک دئیے۔ آج جو ماڈرن دنیا بنی ہے انہوں نے یونانی ٗ ہندوستانی فلاسفی کا تراجم کئے ٗ ہر شعبے میں مسلمان آگے نکلے ٗ سائنس میں ٗ میڈیسن میں اور اس کے بعد وہ جب یورپ نے اس کو ٹیک اوور کر لیا ۔انہوں نے کہا کہ وہ کیا اصول تھے ٗ جب ہم نے پارٹی بنائی تو وہی تین اصول ہم نے بھی اپنائے ٗ انصاف ٗ انسانیت اور خودداری ۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا بجٹ ان تین اصولوں کا عکاس ہونا چاہیے ٗ جب ہماری حکومت آئی تو سب سے بڑا مسئلہ کرنٹ اکائونٹ ڈیفسٹ کا تھا ٗ عام لوگوں کو سمجھانے کیلئے کرنٹ اکائونٹ کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں ڈالرز کتنے آرہے ہیں اور ملک سے باہر کتنے ڈالر جا رہے ہیں ٗ اس کا پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ڈیفسٹ تھا ۔وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ہماری جو کرنسی تھی وہ خطرے میں تھی ٗ اس کیلئے سب سے بڑا ہم نے آتے ہی دیکھا ٗ ہم نئے تھے ٗ ٹیم نئی تھی ٗ تجربہ نہیں تھا تو اتنے بڑے کرائسس میں ہم نے بڑے مشکل قدم اٹھائے اپنی اکانومی کو ٹھیک کرنے کیلئے۔ وہ تکلیف دہ تھے۔ ایک ملک کو اگر گھر کی مثال سے سمجھیں تو ایک گھر مقروض ہو جاتا ہے ٗ آمدنی اور خرچے میں خسارہ ہو جاتا ہے ٗ کرایہ دار آرہا ہے ٗ قرضے لئے ہوئے تو وہ گھر کیا کرتا ہے ٗ وہ صرف دو چیزیں کر سکتا ہے ۔ اپنے خرچے کم کر سکتا ہے اور اپنی آمدنی بڑھانے کی کوشش کر سکتا ہے۔ جب وہ خرچے کم کرتا ہے تو تکلیف ہوتی ہے گھر کو ٗ بچے کو اچھے سکول سے نکالنا پڑتا ہے ٗ گاڑی ہے تو بائیک پر آنا پڑتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے مشکل فیصلے کرنے تھے ٗ لوگوں کو تکلیف ہوئی ٗ عوام بڑی مشکل سے گزری اور کئی ابھی بھی گزر رہے ہیں ٗ مگر جب ایک ملک مقروض ہو جائے تو اس کے علاوہ اور کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا ٗ ترکی میں جب طیب اردوان آئے تو وہ بھی قرضے میں ڈوبے تھے ٗ انہیں بھی آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا لیکن وہ بھی دو تین سال مشکل وقت سے گزرے ٗ مجھے آج یہ خوشی ہے کہ ہماری اکنامک ٹیم جس طرح اکنامک چیلنج سے نکلے ۔ ہم نے ملک سے باہر دوست ممالک سے پیسے اکٹھے کئے ٗ میں ان ممالک کا شکر گزار ہوں جیسے یو اے ای نے ہماری مدد کی ٗ سعودی عرب نے ٗ چائنہ نے ہماری مدد کی اور ہمیں ڈیفالٹ سے سمجھا دیا۔