ویب ڈیسک: (علی زیدی) ذیابیطس کا مستقل علاج چین کے سائنسدانوں نے دریافت کرلیا ہے۔ بیجنگ کے سائنسدانوں نے ٹائپ ون ذیابیطس کا علاج تبدیل شدہ اسٹیم سیلز کے ذریعے کیا۔
رپورٹ کے مطابق 3 ماہ کے اندر، مریض کا جسم خود ہی انسولین بنانا شروع کر دیتا ہے ٹائپ ون ذیابیطس کی شکار ایک 25 سالہ خاتون کا جسم ’سٹیم سیلز ون پروگرامڈ ٹرانسپلانٹ‘ علاج کے بعد تین ماہ کے اندر اپنی انسولین خود بنانے لگا۔
بتایا گیا ہے کہ پروگرامڈ اسٹیم سیلز اس خاتون کے جسم میں داخل کیے گئے اور انسانی تاریخ میں پہلی بار ٹائپ ون ذیابیطس کے شکار جسم نے تین ماہ کے اندر اپنی انسولین خود تیار کرنا شروع کر دی۔ یہ اسٹیم سیل اسی خاتون کے جسم سے حاصل کیے گئے تھے۔
تیانجنگ کی رہائشی اس خاتون نے سائنسی جریدے نیچر کو ٹیلی فون پر بتایا، ''میں اب دوبارہ چینی کھا سکتی ہے۔ میں اب ہر شے کھا پی رہی ہوں۔‘‘
کینیڈا کی البیرٹا یونیورسٹی کے ٹرانسپلانٹ سرجن جیمز شاپیرو کے مطابق اس سرجری کے نتائج حیران کن ہیں: ''انہوں نے مریض میں ذیابیطس کو مکمل طور پر پلٹ دیا۔ اس علاج سے قبل مریض کو بھاری مقدار میں انسولین کی ضرورت پڑا کرتی تھی۔‘‘
یہ مطالعاتی رپورٹ سیل نامی جریدے میں شائع ہوئی ہے، جب کہ اس پر ایک تفصیلی مضمون سائنسی جریدے نیچر نے بھی شائع کیا ہے۔ اس سے قبل شنگھائی میں محققین کے ایک اور گروپ نے رواں برس اپریل میں ٹائپ ٹو ذیابیطس کے ایک 59 سالہ مریض کے جگر میں انسولین پیدا کرنے والے آئس لیٹس داخلی کیے تھے اور وہ آپریشن کامیاب رہا تھا۔ یہ آئس لیٹس بھی پروگرامڈ اسٹیم سیلز سے تیار کیے گئے تھے۔
واضح رہے کہ اسٹیم سیلز کے ذریعے ذیابیطس کے علاج سے متعلق چند بنیادی تحقیقی مطالعات دنیا کے مختلف ممالک میں چل رہے ہیں۔ دنیا بھر میں تقریباﹰ نصف ارب افراد ذیابیطس کا شکار ہیں، جن میں ٹائپ ٹو ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد زیادہ ہے۔
اس بیماری میں انسانی جسم کافی مقدار میں انسولین تیار کرنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے۔ ٹائپ ون ذیابیطس میں خود انسان کا اپنا مدافعاتی نظام پنکریاز یا لبلبے میں آئس لیٹ خلیات پر حملہ کرتا ہے۔ آئس لیٹ ٹرانسپلانٹ سے اس بیماری کا علاج ممکن ہے، تاہم اس کے ڈونرز کی تعداد قلیل ہے جب کہ اس ٹرانسپلانٹ کے بعد بھی مدافعاتی نظام کو ڈونر ٹشوز کو رد کرنے سے روکنے کے لیے خصوصی دوا کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔