ویب ڈیسک :محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی،، کیا اب ڈیٹا دنیا پر حکمرانی کرے گا ؟ انسان الگورتھم کے غلام ہوں گے؟
انسان ایک منٹ میں 800 الفاظ پروسس کرتے ہیں. اس کے مقابلے میں "چیٹ جی پی ٹی" کی حریف "کلاڈ اے آئی" نامی مصنوعی ذہانت سے چلنے والا چیٹ بوٹ کے پاس ایک منٹ میں 75،000 الفاظ پروسس کرنے کی صلاحیت ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر انسان آرٹیفشل انٹیلی جینس پر اپنا انحصار بڑھاتا جائے گا تو اس کی کریٹیکل تھنکینگ یعنی تنقیدی جائزہ لینے والی سوچ کم سے کم ہونے کا خطرہ ہوگا۔ اور ہم جانتے ہیں کہ اگر چیزوں کو تنقیدی سوچ سے پرکھنے کی صلاحیت ختم ہوجائے تو آزادی ختم ہو جاتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جبکہ بڑے ترقیاتی نظاموں کی حفاظت، سیاست میں آرٹیفیشل انٹیلی جینس کے غلط استعمال اور قانون پر عمل داری حکومتوں کا کام ہے، تاہم افراد کو صارفین کے حیثیت سے اور معاشروں کو مجموعی طور پر بھی انٹرنیٹ جیسے بڑے آن لائن سپر ہائی وے کے پلیٹ فارم کے استعمال کے بارے میں آگاہی کی ضرورت ہے۔
رپورٹ کے مطابق ا لگورتھم کی بنیاد پر بنائے گئے پروگرام اور نظام اس طرح سے ترتیب دیے گئے ہیں کہ الگورتھم انسانی خواہشوں، ان کی پسند اور حتی کہ ان کے جذبات تک کو سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
قریبا 70 فیصد کے قریب لوگ انٹرنیٹ استعمال کررہے ہیں جن میں سے اوسطاً ہر صارف روزانہ 6.35 گھنٹے انٹرنیٹ سے منسلک ٹیکنالوجی کو استعمال کرتا ہے،
یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ اگرباقی کے تقریباً 30 فیصد لوگ بھی آن لائن ہوجائیں تو ایلگورتھم کتنے ذہین ہوجائیں گے۔
جیسے جیسے زیادہ سے زیادہ انسان الگورتھم کے طریقہ کار کو استعمال کرتے ہیں الگورتھم اتنے ہی ذہین ہوتے جارہے ہیں اور اس کے ساتھ افراد کا ان پر انحصار بڑھتا جارہا ہے۔
"ہم ایسے معاشرے کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں لوگوں کی حالت الگورتھم کے غلاموں کی سی ہو سکتی ہے۔"
ڈیٹا اور کاروبار میں ذہانت پر کام کرنے والی کمپنی "اسٹیٹسٹا" کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 5.44 ارب انٹرنیٹ صارفین ہیں۔