ویب ڈیسک: سندھ ہائیکورٹ کی میرپورخاص سرکٹ بینچ نے ڈاکٹر شاہنواز کنبھر قتل کیس میں تحریک لبیک پاکستان کے رہنما کی 10 روزہ حفاظتی ضمانت منظور کر لی۔
رپورٹ کے مطابق عدالت نے جنوبی سندھ کے ٹی ایل پی رہنما پیر عمر جان سرہندی کو ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت قبل از گرفتاری منظور کی۔
ابراہیم کنبھر کی شکایت پر پیر عمر جان سرہندی، ڈی آئی جی جاوید جسکانی، اس وقت کے ایس ایس پی میرپور خاص اسد چوہدری، ایس ایس پی عمرکوٹ آصف رضا بلوچ اور دیگر کئی افراد کے خلاف درج مقدمے میں مؤقف اپنایا گیا کہ نامزد افراد نے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر توہین مذہب کے الزام پر پولیس حراست میں ان کے بہنوئی کے قتل کا منصوبہ بنایا۔
ٹی ایل پی رہنما کے وکیل نے قتل کی ایف آئی آر کو کالعدم قرار دینے کی بھی درخواست دائر کی۔
عدالت نے تمام فریقین کو درخواست جاری کرتے ہوئے سماعت 14 اکتوبر تک ملتوی کردی۔
پیر عمر جان سرہندی کی میڈیاٹاک
عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پیر عمر جان سرہندی نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے عمرکوٹ میں پرتشدد مظاہروں کے دوران غیر جانبدارانہ کردار ادا کیا اور مشتعل ہجوم کو سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچانے سے روکنے کی کوشش کی لیکن انہیں قتل کے مقدمے میں نامزد کرنا افسوس ناک ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت کے ایس ایس پی عمرکوٹ اور دیگر انتظامی افسران کے ساتھ صورتحال کو قابو کرنے کی کوشش کر رہے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ امن کے لیے مثبت کردار ادا کرنا تمام باضمیر شہریوں کی طرح ان کی ذمہ داری ہے اور وہ مطمئن تھے کہ ان کے اقدامات سے عمرکوٹ کو ایک بڑی تباہی سے بچانے میں مدد ملی۔
دریں اثنا، ایڈووکیٹ علی پلھ اور دیگر افراد نے عدالت میں ڈی آئی جی جاوید جسکانی، اس وقت کے ایس ایس پی عمرکوٹ اور میرپور خاص کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ ( ای سی ایل) میں شامل کرنے کی درخواست دائر کی۔
انہوں نے عدالت سے ڈاکٹر شاہنواز کو جعلی پولیس مقابلے میں قتل کرنے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
ایک پریس ریلیز کے مطابق عدالت نے تینوں پولیس افسران کا نام نو فلائی لسٹ میں ڈالنے کی ہدایت کی ہے۔
متعدد مذہبی رہنماؤں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ واقعات کی مکمل اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرے۔
یہ مطالبہ پاکستان سنی تحریک کے شاہد غوری، عبدالخالق آف بھرچونڈی، جماعت اہلسنّت کے مفتی محمد جان نعیمی، مشائخ اتحاد کونسل پاکستان کے صدر غلام مجدد سرہندی اور دیگر نے عمرکوٹ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے ریاست کو خبردار کیا کہ وہ اپنی رویے کو درست کرے، علما اور مذہبی رہنماؤں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسانے سے گریز کرے، بصورت دیگر وہ انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ ڈاکٹر کے ’ماورائے عدالت قتل‘ اور ان کی لاش کو نذر آتش اور بے حرمتی کرنے کی حمایت نہیں کرتے۔
واضح رہے کہ عمرکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک ڈاکٹر شاہ نواز کنبھر کو میرپورخاص میں ایک مبینہ ماورائے عدالت قتل میں پولیس نے گولی مار کر قتل کر دیا تھا، واقعے سے ایک روز قبل ہی ان پر توہین مذہب کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔