ویب ڈیسک: ایک چینی کمپنی کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ایک پروٹوٹائپ کمرشل ٹرانسپورٹ طیارے کی آزمائشی پرواز کی ہے جو ماک 4 (4939 کلومیٹر فی گھنٹہ) کی رفتار سے سفر کر سکتا ہے۔
ساؤتھ چائنہ مارننگ پوسٹ کے مطابق سپیس ٹرانسپورٹیشن کمپنی نے اتوار کے روز کہا کہ اس کے یونکسنگ پروٹو ٹائپ طیارے نے ایک دن پہلے آزمائشی پرواز کو کامیابی سے مکمل کر لیا ہے۔
چین کے شہر بیجنگ میں واقع یہ کمپنی جسے لنگ کانگ تیانکسنگ ٹیکنالوجی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، نے کہا کہ ان کی اس نئی انجن ٹیکنالوجی کا اگلا جائزہ نومبر میں ہوگا۔
کمپنی کے مطابق ان کا مقصد سُپر سونک مسافر طیارہ تیار کرنا ہے جو 2027 میں اپنی پہلی پرواز کرے گا۔
یہ طیارہ آواز کی رفتار سے چار گنا زیادہ تیز سفر کر سکتا ہے۔ واضح رہے آواز کی رفتار تقریباً 1235 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ اور آواز سے چار گنا زیادہ رفتار کا حامل یہ طیارہ مسافروں کو بیجنگ سے نیویارک تک تقریباً دو گھنٹے میں لے جا سکے گا۔
مثال کے طور پر پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کا فاصلہ دیکھا جائے تو وہ تقریباً 4 ہزار 200 کلومیٹرز سے زائد ہے۔ اتنے فاصلے کو بذریعہ فضائی پرواز طے کرنے میں 4 گھنٹے 30 منٹ تک لگ سکتے ہیں۔
اسلام آباد اور ریاض کا فاصلہ اگر اس سپر سونک جیٹ پر کیا جائے تو مسافروں کو اپنی منزل پر پہنچنے میں تقریباً 50 منٹ لگیں گے۔
اس سے قبل آخری سویلین سپرسونک جیٹ کانکورڈ تھا، جسے فرانسیسی اور برطانوی ایرو سپیس کمپنیوں نے مشترکہ طور پر تیار کیا تھا۔ یہ طیارہ 1976 میں سروس میں داخل ہو کر 2003 میں ریٹائر ہوا تھا اور آواز کی رفتار سے دوگنا رفتار سے سفر کر سکتا تھا۔
کنکورڈ میں چار ٹربو جیٹ انجن تھے جو طیارے کو 60 ہزار فٹ (تقریباً 18,300 میٹر) کی بلندی پر لے جانے اور سیدھا افقی ٹیک آف اور لینڈنگ انجام دینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
دوسری جانب چائنہ کا یونکسنگ سپرسونک جیٹ بہتر ایرو سپیس ٹیکنالوجی کو اپنے ڈیزائن میں شامل کرنے کے بعد دو گنا تیز رفتار سے سفر کر سکتا ہے۔
اس نئے طیارے کے تخلیق کار کے مطابق اس کا ٹیک آف اور لینڈنگ عمودی یعنی سیدھے ہیں اور یہ 20 ہزار میٹر (تقریباً 65,600 فٹ) سے اوپر کی بلندی تک پہنچ سکتا ہے۔
کمپنی کی ویب سائٹ پر ایک جاری کردہ اینیمیشن میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح یونکسنگ طیارہ ’سٹون سکمنگ‘ (پانے پر لگاتار پتھر اچھالنے کا کھیل) کی تکنیک کا استعمال کرتا ہے۔
کیان زوزین نامی انجینئر جنہیں ’فادر آف چائنیز ایرو سپیس‘ کہا جاتا ہے، نے اس تصور کو ہائپرسونک فلائٹ کی وضاحت کرنے کے لیے استعمال کیا اور بتایا کہ جیسے پانی میں ایک مخصوص انداز سے پتھر پھینکنے سے وہ پانی کی سطح پر اچھل کر لمبا سفر طے کر لیتا ہے ویسا ہی تصور اس طیارے پر لاگو کیا جا سکتا ہے۔
سپیس ٹرانسپورٹیشن اینیمیشن میں دکھایا گیا ہے کہ یونکسنگ طیارے کو بوسٹر کے ذریعے آسمان میں بھیجا جا رہا ہے، جو پھر ہوائی جہاز سے الگ ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد ہوائی جہاز طویل فاصلے تک گلائیڈ کرتا ہے۔ جیسے ہی یہ اپنی منزل کے قریب پہنچتا ہے یہ اپنی رفتار کو سب سونک سطح تک کم کرنے کے لیے گلائیڈ کرتا ہے جس کے بعد اس کا لیکوئڈ راکٹ انجن عمودی لینڈنگ حاصل کرنے کے لیے فعال ہو جاتا ہے۔
ٹیسٹ فلائٹس کے دوران طیارے کے ایرو ڈائنامکس، تھرمل پروٹیکشن اور کنٹرولز کو کامیابی سے ٹیسٹ کیا گیا۔
کمپنی کے نائب صدر شین حیبن نے 2021 میں ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ ’ کمپنی 2025 تک خلائی سیاحت میں قدم رکھے گی اور 2030 تک تیز رفتار بین الاقوامی ٹرانسپورٹ کا آغاز کرے گی‘۔
شین حیبن نے مزید بتایا کہ ان طیاروں سے نہ صرف مسافروں کا وقت بچے گا بلکہ 4 لاکھ 50 ہزار ڈالر کی ٹکٹ کا خرچہ کم ہو کر 63 ہزار ڈالر تک رہ جائے گا۔