(ویب ڈیسک ) چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ آئینی ترامیم نہ ہونے کی صورت میں پیدا ہونے والے حالات پھر شاید کسی کے کنٹرول میں نہ رہیں۔
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے سپریم کورٹ رپورٹرز سے غیر رسمی گفتگو کی۔
صحافی نے سوال کیا کہ کیا آپ بانی پی ٹی آئی کے ملٹری ٹرائل کے حق میں ہیں۔اس پر بلاول نے کہا کہ ابھی تو دیکھنا ہے کہ شواہد کیا ہیں، ویسے بھی صدارتی معافی کا اختیار ہمارے پاس ہے اور ویسے بھی پاکستان پیپلز پارٹی سزائے موت کے خلاف ہے۔
ایک صحافی نے سوال کیا کہ کیا مجوزہ آئینی ترامیم کی ڈیڈ لائن 25 اکتوبر تک ہے۔اس پر بلاول نے جواب دیا کہ 25 اکتوبر سے پہلے ترامیم ہوجائیں تو معاملہ پر امن طور پر حل ہو جائے گا۔ بعد میں بھی ہوسکتی ہیں لیکن پھر آمنے سامنے کی صورتحال ہوسکتی ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ آئینی عدالت کے معاملے کو ایسے نہیں چھوڑیں گے اسکو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے ۔
صحافی نے پوچھ اکہ آئینی عدالت کا خیال اب کیوں آیا جس پر چیئرمین پی پی نے کہا کہ ہم پہلے ہی بہت تاخیر کا شکار ہوچکے ہیں، ہمارا تو 2006 کا مطالبہ ہے، اور یہ ہمارے منشور کا حصّہ ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ عدلیہ نے جو کیا اسکی ٹائمنگ پر کیوں بات نہیں رہی، جس طرح مخصوص نشستوں پر حکم امتناعی جاری کیا گیا اس کی ٹائمنگ پر بات کیوں نہیں ۔ جب 14 ستمبر کو پارلیمنٹ کا اجلاس ہونا تھا اس وقت ہفتے والے دن ججز کی 4 صفحات کی وضاحت کی ٹائمنگ پر کیوں سوال نہیں کیا جاتا۔
انہوں نے کہا کہ آئینی عدالت کے سربراہ کی مدت تین سال کی ہوگی۔ فوجی عدالتوں کے قیام کے حق میں نہیں۔ وفاقی آئینی عدالت کے قیام کا جواز سپریم کورٹ کی اپنی ماضی کی تاریخ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی بدامنی کیس 2011 سے اب تک چل رہا ہے، کبھی اس میں سے واٹر کمشن بن جاتا ہے، اور واٹر کمش وہاں بھی جاتا ہے جہاں پانی ہی نہیں۔ کراچی بدامنی کیس کو بہانہ بناکر عدلیہ نے ہمارا بلدیاتی نظام ہی متاثر کردیا۔
کیا بدامنی صرف کراچی میں ہے، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بدامنی نہیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ کھیل تو یہ کھیلنا چاہیے کہ کون بنے گا وزیراعظم لیکن یہاں کھیل کھیلا جارہا ہے کہ کون بنے گا آرمی چیف اور کون نہیں بنے گا، یہ کھیل کھیلا جارہا ہے۔9 مئی کے واقعات بغاوت کے قریب ترین تھے۔
چیئرمین پی پی کا کہنا تھا کہ آئینی ترامیم نہ ہونے کی صورت میں پیدا ہونے والے حالات پھر شاید کسی کے کنٹرول میں نہ رہیں۔ 18 ویں ترامیم سے مارشل لا کا راستہ روکا، صوبوں کا خود مختیار بنایا۔ تمام اداروں اپنی آئینی حدود سے باہر نکل چکے ہیں۔